Skip to main content

Posts

The creation of Bangladesh from Pakistan!

16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا سب سے دردناک دن مانا جاتا ہے۔ اس دن مشرقی پاکستان میں پاک بھارت جنگ کا اختتام ہوا اور ڈھاکہ میں پاکستانی فوج نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اصل کہانی اس سے کئی سال پہلے شروع ہوتی ہے۔ 1947 میں پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا: مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، جن کے درمیان تقریباً ہزار میل کا فاصلہ اور بھارت حائل تھا۔ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان زیادہ بڑا تھا، لیکن اقتدار، فوج، معیشت اور فیصلوں میں اسے برابر کا حق نہیں دیا گیا۔ زبان کا مسئلہ بھی بڑا سبب بنا، جب اردو کو واحد قومی زبان قرار دیا گیا اور بنگالی زبان کو نظر انداز کیا گیا، جس سے وہاں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ 1970 کے عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی، لیکن اقتدار منتقل نہ کیا گیا۔ اس سیاسی بحران نے حالات کو مزید خراب کر دیا۔ احتجاج شروع ہوئے، بداعتمادی بڑھی اور پھر فوجی آپریشن ہوا، جس سے مشرقی پاکستان میں غصہ اور علیحدگی کی تحریک مضبوط ہو گئی۔ بھارت نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا، مکتی باہنی...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

مولانا روم اور تصوف

  انسان کی زبان وہ ترازو ہے جس پر اس کے اخلاق، کردار، اور روحانی درجہ کا وزن ہوتا ہے۔ زبان سے نکلنے والے الفاظ دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ عرفان اور صوفیاء کرام نے ہمیشہ “خاموشی” اور “گفتگو کے آداب” پر خاص زور دیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ، جو عشق، حکمت، اور روحانیت کے سمندر ہیں، انہوں نے گفتگو کے تین دروازوں کا ذکر کر کے دنیا کو وہ درس دیا جو انسان کی گفتار کو نورِ معرفت میں بدل دیتا ہے۔ مولانا رومیؒ کے تین دروازے: زبان سے پہلے دل کا امتحان مولانا رومیؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی گفتگو کو زبان سے ادا کرنے سے پہلے تین دروازوں سے گزارنا چاہیے. 1️⃣ پہلا دروازہ: سچائی (The Door of Truth) سب سے پہلے خود سے سوال کرو: "کیا میں جو کہنے جا رہا ہوں وہ سچ ہے؟" اگر جواب “نہیں” ہو تو زبان بند رکھو۔ رومیؒ فرماتے ہیں: > "جھوٹ زبان کی گندگی ہے، جو دل کے نور کو زائل کر دیتا ہے۔" سچ وہ آئینہ ہے جو روح کو صاف کرتا ہے۔ مگر اگر گفتگو سچائی سے خالی ہو تو وہ علم نہیں، فریب بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: > "وَقُولُوا قَوْلًا ...

تصوف کس طرح حاصل ہو

  تصوف میں انسانی وجود کو ظاہری اور باطنی جہتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ظاہری پہلو بدنِ خاکی ہے، جبکہ باطنی پہلو روحانی مراکز یا لطائف ہیں، جن کے ذریعے انسان قربِ الٰہی کے مختلف مدارج طے کرتا ہے۔ ان لطائف میں سے ایک نہایت اہم اور نازک لطیفہ "لطیفۂ سری" (Latifa-e-Sirri) ہے، جو سالک کے باطن میں اسرار و مکاشفات کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کی بیداری اور تربیت براہِ راست مرشدِ کامل کی نگرانی اور روحانی توجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ لطائفِ باطن کا پس منظر صوفیاء کرام کے نزدیک انسان کے باطن میں مختلف روحانی مراکز (لطائف) موجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور قرب کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ان کی مشہور ترتیب درج ذیل ہے: 1. لطیفۂ قلب 2. لطیفۂ روح 3. لطیفۂ سری 4. لطیفۂ خفی 5. لطیفۂ اخفی ان میں لطیفۂ سری ایک درمیانی اور نہایت نازک مقام رکھتا ہے، جو "باطن کا باطن" کہلانے کے لائق ہے۔ لطیفۂ سری کی حقیقت "سِرّ" عربی زبان میں "راز" یا "باطنی پوشیدگی" کے معنی میں آتا ہے۔ اس اعتبار سے لطیفۂ سری وہ مقام ہے جہاں بندے اور خالق کے درمیان روحانی راز منکشف ہوتے...

تصوف

  تصوف، دراصل انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح اور روحانی کمال کے حصول کا نام ہے۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ انسان کی حقیقت صرف اس کے جسمِ خاکی (عالمِ خلق) تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اندر ایک روحانی وجود بھی ہے جو عالمِ امر سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: > "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي" (سورۃ الإسراء: 85) یعنی “وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے۔” یہی "امرِ رب" انسان کے اندر مختلف روحانی مراکز کی صورت میں موجود ہے، جنہیں صوفیاء نے "لطائف" کہا ہے۔ ان لطائف کا تزکیہ اور بیداری روحانی ترقی کا بنیادی زینہ ہے۔ لطائف کی تعریف لفظ لطیفہ، "لُطف" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور باریکی کے ہیں۔ اصطلاحِ تصوف میں "لطائف" سے مراد وہ باطنی روحانی مراکز ہیں جن کے ذریعے انسان کا دل، روح، عقل، سرّ اور دیگر باطن کے پہلو نورِ الٰہی سے منور ہوتے ہیں۔ یہ لطائف، عالمِ خلق (مادّی دنیا) سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لطائف کی اقسام اگرچہ مختلف صوفی ...

فلسفہ اور تعلیم

  تعلیم محض کتابی علم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا فکری نظام ہے، جس کے پیچھے مختلف فلسفے کارفرما ہیں۔ ہر فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں کو کس طرح پڑھایا جائے، کیا سکھایا جائے اور تعلیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے۔ ذیل میں ان بڑے بڑے تعلیمی فلسفوں کو دلچسپ اور تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے: ایسینشیلزم (Essentialism) 📚 اس فلسفے کے مطابق تعلیم کا پہلا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو وہ بنیادی مہارتیں سکھائی جائیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے، جیسے پڑھنا، لکھنا اور حساب۔ یہاں استاد کی مرکزی حیثیت ہے اور وہی کلاس روم میں علم کا اصل ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کو ڈسپلن کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ ایک مضبوط بنیاد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ اس سوچ کے مطابق اگر بچے بنیادی مہارتوں پر عبور حاصل کر لیں تو باقی سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ پرینیئلزم (Perennialism) 🏛️ یہ فلسفہ وقت کے امتحان سے گزری ہوئی دانش پر زور دیتا ہے۔ اس میں تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ کلاسیکی ادب، فلسفہ اور آفاقی سچائیوں سے واقف ہوں۔ یہاں بات صرف معلومات حاصل کرنے کی نہیں بلکہ ذہن کو سوچنے، غور کرنے اور گہرائی میں اترنے کی تربیت دی ...

پاکستان کے دریا۔۔۔

  دریا ناراض کیوں ہیں ؟  ۱۔۔۔۔۔ دریائے سندھ  ۲۔۔۔۔۔دریائے جہلم  ۳۔۔۔۔دریاے چناب  ۴۔۔۔۔دریائے  راوی ۵۔۔۔۔دریائے ستلج   ۶۔۔۔۔دریائے بیاس   ۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے ایک وقت تھا پنجاب میں  یہ چھ دریا تھے ۔  اِن کے اپنے اپنے روٹ تھے۔ اِن کی اپنی اپنی چراگاہیں اور اپنے اپنے جنگل تھے ۔ بڑے بڑے ظرف رکھتے ۔ ہزاروں میل تک پنجاب کی زمین کو سیراب کرتے ہوئے اپنا پانی تقسیم کر کے ہلکی رَو میں سندھ میں جا ملتے  اور یوں دھرتی کا  سبز وسُرخ حُسن  جوبن پر رہتا ۔ لوگ سُکھی بستے تھے ۔  جب برسات کے موسم آتے ۔ چھ کے چھ دریا اپنا پانی اپنے اپنے ظرف میں سمیٹ کر نکل جاتے  ۔  اگر پانی ظرف سے چھلکتا تو دائیں بائیں دو تین کلومیٹر کی چراگاہیں اُس پانی کو اپنی گود میں لے لیتی تھیں ۔  یہ چراگاہیں عوام کی سانجھی ملکیت ہوتی تھیں ۔ فطرت کی پرورش کرتی تھیں ، پرندے اور جانور پالتی تھیں ، شکار گاہیں اور جنگل آباد ہوتے تھے   پھر کیا ہوا کہ اہلِ اقتدار نے دریائے بیاس کو ختم کر کے اُس کا آدھا پانی ستلج میں ڈال دیا...

پاکستان کا سیلاب اور تدبر

  2022 میں اسی موسم میں بڑا شدید سیلاب آیا تھا  تو میں نے ایک آبی ماہر کے الفاظ آپ کے حوالے کیے تھے ۔آج کچھ قوم پرست اور اُن کے چیلے سوشل میڈیا پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ڈیم بنانے سے سیلاب نہیں رُکیں گے ۔ارے بابا کیوں نہیں رُکیں گے ۔سیدھی سی بات ھے ڈیموں کا ایک انفرا سٹریکچر ہو نا چاہیے جس میں سے پانی لیک کر کے یا بہا کر گنجائش پیدا کی جاتی ھے تاکہ نیا آنے والا پانی کھپایا جا سکے ۔ خیر وہی 2022 والی  تحریر آپکے پیش  خدمت ھے )) گارڈنگ گروپ کے دوستو آپکی خدمت عالیہ میں چند حقائق رکھنا چاہوں گا ۔یہ حقائق ماخوذ ہیں دنیا کے ایک بہت بڑے آبی ماہر اور واٹر انجینیر کی گفتگو سے ۔ جی ہاں یہ آبی ماہر جناب شمس الملک ہیں جو ہمارے واپڈا کے چہرمین بھی رہے۔ یہ دنیا یا اس کائینات کے سب سے بڑے آبی ماہرین میں سے ایک ہیں تعلق کے پی کے سے ھے اور ایک پٹھان ہیں۔پاکستان کے حوالے سے اُن کا کہنا ھےکہ 1:: پاکستان ایک نچلی سطح زمین والی ریاست ھے  یعنی زیریں ریاست ھے جبکہ اس کے اطراف کی ساری ریاستیں بالائی ہیں اونچی سطح زمین والی ہیں ۔اس لیے پاکستان میں بارش چاہے کم ہو لیکن بالائی ریاستوں میں...

ہم بوڑھے لوگ

  *محترم ریٹائرڈ حضرات*😇  ہم ایک شاندار عمر میں ہیں، ہم خوبصورت بھی نظر آتے ہیں، ہمارے پاس تقریباً وہ سب کچھ ہے جو ہم بچپن میں چاہتے تھے:  ہم اسکول نہیں جاتے اور نہ ھی کام کرتے ہیں، ہمارے پاس ماہانہ پنشن ھے۔   ہم میں سے کچھ کے پاس اب بھی ڈرائیونگ لائسنس اور یہاں تک کہ اپنی کار بھی ھے۔   *تو زندگی خوبصورت ھے نا!*   اس کے علاوہ، ہم ناقابل یقین حد تک ہوشیار ہیں، ہمارا دماغ تھوڑا سست ہے کیونکہ یہ علم سے بھرا ہوا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈرائیو سست ہو جاتی ہے کیونکہ یہ فائلوں سے بھری ہوتی ہے۔ بعض اوقات ہم میں سے کچھ ایک کمرے میں جاتے ہیں تو یاد نہیں رہتا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں، یا ہمیں یاد نہیں ہے کہ ہم نے کچھ کہاں رکھا ہے۔   *یہ یادداشت کا مسئلہ نہیں ہے!* قدرت ہمیں کم از کم تھوڑی دیر حرکت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایسا کرتی ہے۔  *60 سال سے زیادہ عمر کے ہر فرد کے لیے:*  *ضروری خوراک:*  1. سبزیاں اور پھل۔  2. سمندری غذا، خاص طور پر سالمن مچھلی۔  3. گری دار میوے  4. انڈے اور چکن  5. ایکسٹرا ور...

سیلاب اور ڈیم۔۔۔۔۔۔

  سیلابوں کی روک تھام کا سب سے مناسب اور سائنسی حل پانی کو اس کے فطری راستوں پر بہنے دینا اور بہاؤ کو کسی صورت نہ روکنا ہے۔ ڈیمز بنانے سے یہ بہاؤ رکتا ہے اور یوں چھوٹے سیلابوں سے تو آپ بچ جاتے ہیں مگر بڑے سیلابوں کا راستہ خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ڈیم پانی کی اسٹوریج کا ذریعہ نہیں کیوں کہ پانی کا بہترین ذخیرہ زمین کے اندر ہوتا ہے۔ ڈیمز بجلی کے حصول کا ذریعہ بھی نہیں کیوں کہ اس وقت اس سے کہیں سستی بجلی پون چکیوں اور سولر سسٹم سے حاصل ہو سکتی ہے۔ خدارا انفراسکرکچر کے منصوبوں کو ماحول کے مطابق بنائیں ورنہ یہ ڈیمز مستقبل میں نہ صرف خود تباہ ہو کر آپ کی بھاری سرمایہ کاری بہا لے جائیں گے بلکہ لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سب سے اہم انسداد انسانی زندگی کو قدرتی ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

دماغ اک نعمت

  انسان کا دماغ ایک "بینک" کی مانند ہے۔ جو کچھ آپ اس میں جمع کرتے ہیں، وہی وقت آنے پر آپ کو واپس ملتا ہے۔ اگر آپ منفی سوچیں، شکایات، حسد اور غصہ اس میں جمع کریں گے تو یہ سب آپ کی شخصیت کا حصہ بن کر آپ کی زندگی کو تلخ کر دے گا۔ لیکن اگر آپ مثبت خیالات، علم، تجربات اور اچھے جذبے اس میں محفوظ کریں گے تو یہی سرمایہ ایک دن آپ کو کامیابی، سکون اور وقار کی صورت میں واپس ملے گا۔ لہذا اپنے دماغ کو زرخیز بنائیں  اپ دماغ کو جو سمت دیں گے اپ اپنی شخصیت میں محسوس کریں گے   دماغ  ایک بینک کی طرح، اپکی ادائیگی اپکے اثاثے جو بھی ہوگا دماغ بھی وہی لوٹاتا ہے جو آپ اس میں جمع کرتے ہیں۔ اس لیے دانشمند وہ ہے جو اپنے ذہن کے "خزانے" میں صرف وہی جمع کرتا ہے جو اس کے کل کو بہتر بنا سکے۔ یاد رکھیں! دماغ کا سب سے قیمتی سرمایہ "علم اور مثبت سوچ" ہے۔ اسی میں وہ طاقت ہے جو تقدیر کے دروازے کھول دیتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر

  ذیل میں وہ مضمون ہے جس کا آپ نے ترجمہ کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ مضمون The Times of India پر شائع ہوا اور اس میں روزمرہ کی چند عادتیں بیان کی گئی ہیں جو خاموشی سے بلڈ پریشر (High BP) بڑھا سکتی ہیں۔ --- مضمون کا اردو ترجمہ: بلند فشارِ خون کے محرک: وہ روزمرہ عادتیں جو آپ کے بلڈ پریشر کو بغیر آپ کے ادراک کے بڑھا دیتی ہیں مضمون کار: TOI Lifestyle Desk اپ ڈیٹ: 21 اگست 2025، صبح 9:42 بجے IST  روزمرہ کی عادتیں جو بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں: 1. کم (ناکافی) نیند نیند صرف آرام کا ذریعہ نہیں؛ یہ آپ کے دل اور خون کی نالیوں کے لیے "ری سیٹ" کا وقت ہوتا ہے۔ جب آپ اچھی نیند نہیں لیتے تو آپ کا اعصابی نظام متحرک رہتا ہے، اسٹریس ہارمونز فعال رہتے ہیں، دل کی دھڑکن رات کے وقت نہ گھٹنے کے باعث بلڈ پریشر بلند رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ، دائمی نیند کی کمی ہائی بلڈ پریشر، دل کے دورے، اور فالج کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ بالغوں کے لیے 7–9 گھنٹے آرام دہ نیند تجویز کی جاتی ہے۔   2. ناشتہ چھوڑنا دفتر یا کالج جاتے ہوئے لوگ اکثر ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جسم اس تبدیلی کو محسوس کر لیتا ہے۔ کورٹیسول...

,قوم عاد

  قوم "عاد :  قوم عاد ایک ایسی قوم تھی جو بڑے طاقتور تھے  40 ہاتھ جتنا قد 800 سے 900 سال کی عمر  نہ بوڑھے ھوتے نہ بیمار ھوتے  نہ دانت ٹوٹتے نہ نظر کمزور ھوتی جوان تندرست و توانا رہتے بس انھیں صرف موت آتی تھی اور کچھ نہیں ھوتا تھا صرف موت آتی تھی  ان کی طرف اللہ تعالی نے حضرت ھود علیہ السلام کو بھیجا انھوں نے ایک اللہ کی دعوت دی  اللہ کی پکڑ سے ڈرایا  مگر وہ بولے اے ھود ! ہمارے خداوں نے تیری عقل خراب کر دی ھے جا جا اپنے نفل پڑھ ہمیں نہ ڈرا ہمیں نہ ٹوک  تیرے کہنے پر کیا ہم اپنے باپ دادا کا چال چلن چھوڑ دیں گے عقل خراب ھوگئی تیری جا جا اپنا کام کر آیا بڑا نیک چلن کا حاجی نمازی تیرے کہنے پر چلیں تو ہم تو بھوکے مر جائیں انھوں نے شرک ظلم اور گناھوں کے طوفان سے اللہ کو للکارا تکبر اور غرور میں بد مست بولے ، ، فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُ‌وا فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً ۖ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يَجْحَدُونَ ﴿١٥﴾ اب قوم عاد نے ت...

غصہ۔۔۔۔۔اصلی و نقلی ہیرے۔۔۔۔۔

  بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا " ھے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ۔ " شرط یہ تھی کہ کامیاب جوهری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کر دیا جائے گا ۔ درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے ۔ کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ھوتا تھا ۔ ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ھوا فرشی سلام کے بعد بولا کہ میں وہ میرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں ۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور نا کامی کی صورت میں سر قلم کرنے کی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ھوا ۔ ہیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ھوا اس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ہاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے ۔ شاہی جو ھریوں نے تصدیق کی کے اندھا جیت گیا ھے ۔ بادشاہ بہت حیران ھوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رھی کہ ایک جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا ۔ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی ؟ اندھا بولا یہ تو بہت آسان ھے " میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی ...

موجودہ دور میں پاکستان میں آمدنی بڑھانے طریقہ

  اگر آپکی انکم پاکستانی روہے میں ہے تو آپ خطرے میں ہیں اپنے سروائیول کے لئیے کوئی نا کوئی ایسا جگاڑ کر کے رکھیں تاکہ آئے روز ملک میں آنے والی مہنگائی سے آپکی کچھ نا کچھ بچت ہو جائے۔ پہلا حل: اگر آپکی انکم ڈالر یورو درہم دینار میں یے تو آپ محفوظ ہیں۔۔ دوسرا حل: اپنا پیسہ انویسٹ کریں اور ایسی چیز میں انویسٹ کر کے رکھیں جسے کل کو بیچنا آسان ہو ۔ بہت سے لوگ اضافی پیسے کو پراپرٹی میں انویسٹ کرتے ہیں اور کسی نا کسی مجبوری کے تحت جب انہیں پیسے کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ  پراپرٹی سستی بیچ کر ضرورت پوری کر لیتے ہیں کیونکہ پراپرٹی ایسی چیز ہے جس کا موقع پر ہی گاھک آتا ہے آپ پراپرٹی اٹھا کر منڈی میں نہیں لے جا سکتے۔۔ گاھک آئے گا تو آپکا پلاٹ یا گھر بکے گا ورنہ نہیں بکے گا۔ اگر آپ ایمرجنسی میں پراپرٹی بیچیں گے تو پراپرٹی ڈیلر خرید لے گا کیونکہ اسکے پاس ھولڈنگ پاور ہے وہ مارکیٹ کے اندر کا بندا ہے وہ منافع بھی کما لے گا کیونکہ وہ آپ سے پراپرٹی سستی لے کر مہنگی بیچے ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاھئیے یہ سوال ہر فکر مند انسان کے ذہن میں آتا ہے۔ آپ گاڑی لے لیں کل کو بیچنے کے لئیے گاڑی اٹھا کر مارکیٹ میں لے...

بشر کی کہانی۔۔۔۔۔اشرف المخلوقات

  بشر سے "ب" نکال دیں تو "شر" رہ جاتا ھے, اور "شر" اشرف المخلوقات کے مقام سے گِرنا ھے. "شر" کو بسم اللہ والے نے بسم اللہ کی "ب" عطا کر کے اِس کو "شر" سے بشر بنایا, بشر کو یہاں سے آگے کی طرف سفر کرنا ھے, نہ کہ پیچھے کی طرف. یہاں سے "اشرف" کا "الف" ہٹا لیا جائے گا اور "شرف" کی طرف اِس کا سفر شروع ھوگا. اب اِسے مزید "شرف" حاصل کرنے ھونگے اور "شرف" کے لیے یہ "میم" کا محتاج ھے. "میم" کی مدد سے ہی یہ "شرف"سے "مُشرف" ھو گا. "احد" میں "میم" مِلا تو "احمد" ھوا. اب اِس بشر کا سفر "احمد" کی "دال" سے شروع ھوگا جو کہ دنیا ھے. "د" سے یہ "میم" تک پہنچے گا جو کہ "محمد" ھے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) "محمد" اِسے "ح" سے متعارف کرائیں گے جو کے "حق" ھے. اور "حق" کے بعد اِسے "الف" پھر سے واضح دِکھائی دے گا جو کہ "اللہ" ھے. ...

حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ پر ایک اہم معلوماتی مضمون

📌امام حسن مجتبیٰ صلوات اللہ علیہ: کریم اہل بیتؑ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ تاریخِ اسلام میں ایک ایسی پرنور ہستی ہے جو کرم، سخاوت، حلم، اور صبر و ایثار کا بے مثال نمونہ ہے۔ مولا حسن صلوات اللہ علیہ"کریم اہل بیتؑ" کا لقب اس قدر ملا کہ یہ آپ کی پہچان بن گیا۔ آپ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب نواسے، جنت کے نوجوانوں کے سردار، اور حضرت علی علیہ السلام و حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے پہلے فرزند ہیں۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے، جس میں آپ نے کبھی اپنے ذاتی مفادات کو اہمیت نہیں دی، بلکہ ہمیشہ دین اور امت کی بھلائی کو مقدم رکھا۔ ۱۔ کرم اور سخاوت کی زندہ مثال امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی سب سے نمایاں خصوصیت آپ کی بے مثال سخاوت تھی۔ آپ نے کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ اسی وجہ سے آپ کو "کریم اہل بیتؑ" کا لقب دیا گیا۔ • مالی ایثار:  تاریخ میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنی ساری دولت، اور تین مرتبہ اپنی آدھی دولت اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی۔ آپ کا ...

New World is coming soon....

🚨 *دنیا میں مستقبل قریب میں ہونے والی کچھ تبدیلیاں:*  * جیسے ویڈیو فلموں کی دکانیں غائب ہو گئیں، ویسے ہی پٹرول اسٹیشن بھی ختم ہو جائیں گے۔ 1. کاروں کی مرمت کی دکانیں، اور آئل، ایکزاسٹ، اور ریڈی ایٹرز کی دکانیں ختم ہو جائیں گی۔ 2. پٹرول/ڈیزل کے انجن میں 20,000 پرزے ہوتے ہیں جبکہ الیکٹرک کار کے انجن میں صرف 20 پرزے ہوتے ہیں۔ ان کو زندگی بھر کی ضمانت کے ساتھ بیچا جاتا ہے اور یہ وارنٹی کے تحت ڈیلر کے پاس ٹھیک ہوتے ہیں۔ ان کا انجن اتار کر تبدیل کرنا صرف 10 منٹ کا کام ہوتا ہے۔ 3. الیکٹرک کار کے خراب انجن کو ایک ریجنل ورکشاپ میں روبوٹکس کی مدد سے ٹھیک کیا جائے گا۔ 4. جب آپ کی الیکٹرک کار کا انجن خراب ہو جائے گا، آپ ایک کار واش اسٹیشن کی طرح کی جگہ جائیں گے، اپنی کار دے کر کافی پئیں گے اور کار نئے انجن کے ساتھ واپس ملے گی۔ 5. پٹرول پمپ ختم ہو جائیں گے۔ 6. سڑکوں پر بجلی کی تقسیم کے میٹر اور الیکٹرک چارجنگ اسٹیشن نصب کیے جائیں گے (پہلے دنیا کے پہلے درجے کے ممالک میں شروع ہو چکے ہیں)۔ 7. بڑی بڑی سمارٹ کار کمپنیوں نے صرف الیکٹرک کاریں بنانے کے لئے فیکٹریاں بنانے کے لئے فنڈ مختص کیے ہیں۔ 8. کو...