Skip to main content

مولانا روم اور تصوف

 


انسان کی زبان وہ ترازو ہے جس پر اس کے اخلاق، کردار، اور روحانی درجہ کا وزن ہوتا ہے۔ زبان سے نکلنے والے الفاظ دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ عرفان اور صوفیاء کرام نے ہمیشہ “خاموشی” اور “گفتگو کے آداب” پر خاص زور دیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ، جو عشق، حکمت، اور روحانیت کے سمندر ہیں، انہوں نے گفتگو کے تین دروازوں کا ذکر کر کے دنیا کو وہ درس دیا جو انسان کی گفتار کو نورِ معرفت میں بدل دیتا ہے۔


مولانا رومیؒ کے تین دروازے: زبان سے پہلے دل کا امتحان


مولانا رومیؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی گفتگو کو زبان سے ادا کرنے سے پہلے تین دروازوں سے گزارنا چاہیے.


1️⃣ پہلا دروازہ: سچائی (The Door of Truth)


سب سے پہلے خود سے سوال کرو:

"کیا میں جو کہنے جا رہا ہوں وہ سچ ہے؟"


اگر جواب “نہیں” ہو تو زبان بند رکھو۔

رومیؒ فرماتے ہیں:


> "جھوٹ زبان کی گندگی ہے، جو دل کے نور کو زائل کر دیتا ہے۔"


سچ وہ آئینہ ہے جو روح کو صاف کرتا ہے۔ مگر اگر گفتگو سچائی سے خالی ہو تو وہ علم نہیں، فریب بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:


> "وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا"

“اور سچی بات کہا کرو” (الاحزاب: 70)


2️⃣ دوسرا دروازہ: ضرورت (The Door of Necessity)


اگر کلام سچ ہے تو دوسرا سوال کرو:

"کیا یہ بات کہنا ضروری ہے؟"


بہت سی باتیں سچی ہوتی ہیں مگر ان کا کہنا ضروری نہیں ہوتا۔ صوفیاء فرماتے ہیں کہ “حکمت یہ نہیں کہ تم ہر سچ بول دو، بلکہ یہ ہے کہ تم وہی سچ بولو جو فائدہ دے۔”


حضرت علیؓ نے فرمایا:


> “تمہارے الفاظ تمہارے غلام ہیں، مگر جب وہ زبان سے نکل جائیں تو تم ان کے غلام بن جاتے ہو۔”


ضروری اور موقع محل کے مطابق گفتگو عقل کی علامت ہے، جبکہ بے موقع بات کرنا نفس کا غلبہ۔


3️⃣ تیسرا دروازہ: نرمی اور مہربانی (The Door of Kindness)


اگر بات سچی اور ضروری ہے، تب بھی آخری دروازہ باقی ہے —

"کیا تمہارے الفاظ نرم اور لہجہ مہربان ہے؟"


مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:


> “کڑوے الفاظ دلوں کو بند کر دیتے ہیں، جبکہ نرم لہجہ دلوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔”


اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے اخلاق کے بارے میں فرمایا:


> "فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَهُمْ"

“یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں” (آل عمران: 159)


اگر رسولِ رحمت ﷺ کو سخت مزاج ہونا زیب نہیں دیتا تو ہم کیسے کڑوی بات کہنے کے مجاز ہو سکتے ہیں؟


حضرت شمس تبریزؒ کی تربیت کا فیض


مولانا رومیؒ کی زندگی میں یہ تین دروازے اس وقت کھلے جب ان کی ملاقات حضرت شمس تبریزؒ سے ہوئی۔

حضرت شمسؒ نے ان کے باطن کو ایسا آئینہ بنایا کہ وہ “مولوی رومی” سے “مولانا رومیؒ” بن گئے۔

یہی صحبت کا اثر تھا کہ رومیؒ کے الفاظ محبت، نرمی، اور سچائی کا نور بن گئے۔


خاموشی کی حکمت


رومیؒ فرماتے ہیں:


> “خاموشی سمندر ہے، اور الفاظ اس کے کنارے کی ریت۔ جو خاموشی میں غوطہ لگاتا ہے، وہ حقیقت کو پا لیتا ہے۔”


اسی لیے اہلِ تصوف کے نزدیک کبھی کبھی خاموش رہنا بولنے سے زیادہ حکمت رکھتا ہے، کیونکہ خاموشی میں دل بولتا ہے اور دل کی زبان کبھی غلط نہیں ہوتی۔


عملی نصیحت:


بولنے سے پہلے رک جائیں، سوچیں، تولیں۔


ہر لفظ کو سچائی، ضرورت، اور نرمی کے پیمانے پر پرکھیں۔


اگر کوئی بات دل دکھانے والی ہو، تو خاموش رہنا بہتر ہے۔


زبان کو ذکر، خیر، اور نرمی کی عادت ڈالیں۔


مولانا رومیؒ کے تین دروازے دراصل روحانی تہذیبِ گفتگو کا دروازہ کھولتے ہیں۔

اگر انسان اپنی زبان پر قابو پا لے، تو وہ اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے۔

اور جب زبان حق، ضرورت، اور نرمی کی راہ پر آ جائے تو معاشرہ محبت، حکمت اور امن کا گہوارہ بن جاتا ہے.


یا اللہ! ہمیں سچ بولنے، ضروری بات کہنے اور نرم لہجے میں گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرما۔

ہمارے دلوں کو نرمی، رحم، اور اخلاص سے منور کر دے۔

آمین یا رب العالمین 🌿🤲

Comments

Popular posts from this blog

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...

سورہ الطارق

 *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ* 85:21 *بَلۡ هُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِيۡدٌ*  لفظی ترجمہ:  *بَلْ هُوَ:* بلکہ وہ | *قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ:* قرآن مجید ہے ترجمہ: 85:21 (ان کے جھٹلانے سے قرآن پر کوئی اثر نہیں پڑتا) بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔ Nay, this is a Glorious Qur'an, 85:22 *فِىۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ*  لفظی ترجمہ:  *فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ:* لوح محفوظ میں ترجمہ: 85:22 جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ (Inscribed) in a Tablet Preserved!  85. Al- Burooj 21-22 *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ* *وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِۙ*  لفظی ترجمہ:  *وَالسَّمَآءِ:* قسم ہے آسمان کی | *وَالطَّارِقِ:* اور رات کو آنے والے کی ترجمہ: 86:01 قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی۔ By the Sky and the Night-Visitant (therein);- 86:02 *وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الطَّارِقُۙ‏* لفظی ترجمہ: *وَمَآ اَدۡرٰٮكَ:* اور کیا چیز بتائے تجھ کو | *مَا الطَّارِقُ:* وہ رات کو آنے والا کیا ہے ترجمہ: 86:02 اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے ؟ And what will explain to thee what the N...

شاہ لطیف بھٹائی اور عورت کا مقام

  ✏️انتخاب✏️ اس نے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘ میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘ اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘ میں نے کہا ’’اس طرح کہ : وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘ دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ ’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘ اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ ’’عورت مسئلہ نہیں عورت محبت ہے!‘‘ مگر وہ محبت نہیں جو مرد کرتا ہے! مرد کے لیے محبت جسم ہے عورت کے لیے محبت جذبہ ہے مرد کی محبت جسم کا جال ہے عورت کی محبت روح کی آزادی ہے مرد کی محبت مقابلہ ہے عورت کی محبت عاجزی ہے مرد کی محبت ایک پل ہے عورت کی محبت پوری زندگی ہے مرد کی محبت ایک افسانہ ہے عورت کی محبت ایک حقیقت ہے! سارے شعراء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک اور ہومر سے لیکر ہم تم تک سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے اس لیے شاہ لطیف نے لکھا: ’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘ سب سوچتے رہے کہ ’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟ تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟‘‘ شاہ عبدالطیف کو...