Skip to main content

تصوف

 


تصوف، دراصل انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح اور روحانی کمال کے حصول کا نام ہے۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ انسان کی حقیقت صرف اس کے جسمِ خاکی (عالمِ خلق) تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اندر ایک روحانی وجود بھی ہے جو عالمِ امر سے تعلق رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:


> "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي"

(سورۃ الإسراء: 85)

یعنی “وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے۔”


یہی "امرِ رب" انسان کے اندر مختلف روحانی مراکز کی صورت میں موجود ہے، جنہیں صوفیاء نے "لطائف" کہا ہے۔ ان لطائف کا تزکیہ اور بیداری روحانی ترقی کا بنیادی زینہ ہے۔


لطائف کی تعریف


لفظ لطیفہ، "لُطف" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور باریکی کے ہیں۔

اصطلاحِ تصوف میں "لطائف" سے مراد وہ باطنی روحانی مراکز ہیں جن کے ذریعے انسان کا دل، روح، عقل، سرّ اور دیگر باطن کے پہلو نورِ الٰہی سے منور ہوتے ہیں۔

یہ لطائف، عالمِ خلق (مادّی دنیا) سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے تعلق رکھتے ہیں۔


لطائف کی اقسام


اگرچہ مختلف صوفی سلسلوں (قادری، نقشبندی، سہروردی، چشتی، شطاری وغیرہ) میں لطائف کی تعداد اور ترتیب میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن عمومی طور پر چھ یا سات لطائف تسلیم کیے جاتے ہیں، جنہیں لطائفِ ستہ کہا جاتا ہے۔


1. لطیفۂ قلب (Lataif al-Qalb)


مقام: بائیں چھاتی کے نیچے دو انگل

عالم: عالمِ امر

صفات و اثرات: عشق، محبت، توبہ، ذکرِ خفی


لطیفۂ قلب روحانی سفر کا پہلا مرکز ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ کی محبت اور توبہ کی کیفیت بیدار ہوتی ہے۔

جب سالک اس مقام پر ذکرِ خفی (دل کے اندر ذکرِ الٰہی) میں مصروف ہوتا ہے تو دل کی تاریکی اور دنیاوی آلائشیں دور ہوتی ہیں۔

قرآن میں ارشاد ہے:


> "أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" (الرعد: 28)

یعنی “یادِ الٰہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔”


اس لطیفہ کی صفائی سے انسان کا ارادہ، نیت، اور جذبہ خالص ہو جاتا ہے۔


2. لطیفۂ روح (Lataif al-Ruh)


مقام: داہنی چھاتی کے نیچے بمقابلہ دل

عالم: عالمِ امر

صفات و اثرات: عزم، دلیری، سخاوت، ارادہ


یہ مرکز روحِ انسانی کی قوتوں سے وابستہ ہے۔ جب لطیفۂ روح بیدار ہوتا ہے تو انسان کے اندر بلند ہمتی، سخاوت اور خیر خواہی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ مقام نیک ارواح اور فرشتوں کے تعلق کا مرکز بھی ہے۔

صوفیاء کے نزدیک، لطیفۂ روح کی بیداری سے انسان کی نیت میں اخلاص اور نیکی کی قوت پیدا ہوتی ہے۔


3. لطیفۂ سِرّ (Lataif as-Sirr)


مقام: داہنی چھاتی کے اوپر

عالم: عالمِ امر

صفات و اثرات: اسرارِ الٰہی، مشاہدۂ غیب، روحانی انکشاف


"سِرّ" کا مطلب ہے راز۔ اس لطیفہ کی بیداری کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسرار اور معرفت کے انوار ظاہر ہونے لگتے ہیں۔

یہ وہ مقام ہے جہاں سالک کو مکاشفہ و مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔

یہ راز کا مقام ہے جہاں انسان کے باطن پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات نازل ہوتی ہیں


4. لطیفۂ خفی (Lataif al-Khafi)


مقام: بائیں چھاتی کے اوپر

عالم: عالمِ امر

صفات و اثرات: معرفت، تفکر، تواضع، قربِ الٰہی


"خفی" یعنی پوشیدہ۔

یہ لطیفہ عام شعور سے بھی مخفی ہوتا ہے۔

اس کی بیداری سے سالک میں عاجزی، انکساری، فہم اور باطنی بصیرت پیدا ہوتی ہے۔

یہ وہ مقام ہے جس کی روشنی فرشتوں کی سماعت سے بھی پوشیدہ بتائی گئی ہے۔


5. لطیفۂ اَخفیٰ (Lataif al-Akhfa)


مقام: سینے کے وسط میں یا بعض کے نزدیک پیشانی یا سر کی طرف

عالم: عالمِ امر

صفات و اثرات: فنا فی اللہ، توحیدِ کامل، ذاتِ حق کی معرفت


"اَخفیٰ" یعنی سب سے زیادہ پوشیدہ۔

یہ تمام لطائف کا اعلیٰ ترین مرکز ہے، جہاں بندہ فنا فی التوحید کے مقام تک پہنچتا ہے۔

یہ وہ مرحلہ ہے جہاں سالک کے اندر "میں" باقی نہیں رہتی، بلکہ صرف "اللہ" کا شعور رہ جاتا ہے۔

قرآن میں ارشاد ہے:


> "وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ" (ق: 16)

یعنی “ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔”


6. لطیفۂ نفس (Lataif an-Nafs)


مقام: ناف کے نیچے یا بعض کے نزدیک پیشانی کے وسط میں

عالم: عالمِ خلق

صفات و اثرات: خواہشات، نفسِ امّارہ، اصلاحِ باطن


یہ مرکز نفسِ انسانی سے متعلق ہے، جو انسان کے اندر برائی، غرور، حسد اور خواہشات کا سرچشمہ ہے۔

تصوف کا بنیادی مقصد اسی نفس کو تزکیہ کے ذریعے پاک کرنا ہے تاکہ یہ نفسِ مطمئنہ میں بدل جائے۔

قرآن میں ارشاد ہے:


> "قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا" (الشمس: 9)

یعنی “بیشک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا۔”


7. لطیفۂ قالب یا لطیفۂ عنصری (Lataif al-Qalib / Lataif al-‘Unsuri)


مقام: پورے جسم پر محیط

عالم: عالمِ خلق

یہ لطیفہ مادی جسم اور اس کے اعمال و حرکات سے تعلق رکھتا ہے۔

اس کی اصلاح سے ظاہری اعمال، عبادات، اور جسمانی افعال روحانی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔


لطائف کی بیداری کا طریقہ


صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ یہ لطائف صرف ذکرِ الٰہی، مراقبہ، اور شیخِ کامل کی تربیت سے بیدار ہوتے ہیں۔

ہر لطیفہ کی بیداری سے سالک کے باطن میں ایک نیا نور پیدا ہوتا ہے، اور وہ "نفس سے روح تک" کا سفر طے کرتا ہے۔

اس سفر کی تکمیل پر بندہ قربِ الٰہی، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے مقام تک پہنچتا ہے۔


روحانی اثرات


دل میں سکون و اطمینان


دنیاوی لالچ سے بے نیازی


تواضع، صبر اور شکر کی عادت


اللہ کی قربت کا احساس


ذکر میں لذت اور خشوع


تصوف کا مقصد محض نظری علم حاصل کرنا نہیں، بلکہ اپنے باطن کو نورِ الٰہی سے منور کرنا ہے۔

لطائف کی بیداری دراصل انسان کے اندر حق کی شعور اور اللہ کی معرفت کا ظہور ہے۔

یہی انسان کے روحانی سفر کا کمال ہے جہاں بندہ اپنی حقیقت کو پہچان لیتا ہے:


> "مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ"

“جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔”

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...