Skip to main content

Hazrat Ali

 


مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟

ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر

وہ علی :جو عین اسلام ہیں

وہ علی :جو کل ایمان ہیں

وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔

وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔

وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں

وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔

وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔

وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔

وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔

وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔

وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔

وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔

وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔

وہ علی: جس کے عدل کی یہ شان تھی کہ اپنے دور خلافت میں اپنی زرہ کے جھوٹےدعوی کے مقدمہ کے قاضی کی عدالت میں ایک معمولی یہودی کے برابر کھڑا ہو گیا اور اپنے خلاف قاضی کے فیصلہ کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کیا۔

وہ علی :جس کی قوت فیصلہ کی شان یہ ہے کہ رسول خدا نے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا: اقضاکم علی

وہ علی :جس کی شجاعت ضرب المثل تھی اور ہاتف غیبی نے جنگ احد میں جسے یوں داد شجاعت دی: لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔

وہ علی :جس نے بدر و احد کی سخت جنگوں میں اسلام کو فتح مند کیا اورہر معرکے مین پرچم اسلام کو سر بلند کر کے نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑ دئے۔

وہ علی :جس کی جنگ خندق کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت پر بھاری تھی اورجس نے کل ایمان بن کر کل کفر پر فتح حاصل کیا۔ضربۃ علی یوم الخندق افضل من عبادۃ الثقلین۔

وہ علی: جس نے ایک ہاتھ سے در خیبر اکھاڑ کر جنگ کا نقشہ بدل دیا اوررسول خدا سے سند افتخار لی۔

وہ علی :جس نے مشرکین مکہ کے سامنے سورہ برائت کی تلاوت کی۔

وہ علی :جس نے فتح مکہ کے دن علم اسلام کو اٹھایا۔

وہ علی: جو رسول خدا کے دوش مبارک پر بلند ہو کر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا اور{طہر بیتی لطائفین} کا حق ادا کیا۔

وہ علی :جو رزم و بزم دونوںمیں یکساں تھا اگر میدان جنگ میں بے مثال سپاہی و سپہ سالار تھا تو مجلس میں ایک بے نظیر حاکم اورشفیق استاد تھا۔

وہ علی: جس کی فصاحت و بلاغت کے سامنے دنیا عاجز تھی اورجس کے زور بیان کے آگے عرب و عجم کے خطبا زبان کھولنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔

وہ علی :جو شب ہجرت بستر رسول خدا پر بے خوف و خطر آرام کی نیند سویا اورنفس مطمئنہ کا لقب بارگاہ یزدی سے حاصل کیا۔

وہ علی :جو نماز فجر کے سجدے میں ابن ملجم کے تلوار کے وار سے زخمی ہوا اوراکیس رمضان المبارک کے دن درجہ شہادت پر فائز ہوا۔

وہ علی: جس نے محنت و مزدوری کر کے اورباغوں کو پانی دے کر روزی کمانے کو فخر سمجھا۔

وہ علی :جس کا طرز جہانبانی قیامت تک کے لئے مشعل راہ ہے ۔

وہ علی : جس نے امیری اور غریبی کے فرق کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا۔

وہ علی :جس کی فضیلت کے بارے میں جب خلیل ابن احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: ؛میں کیسے اس شخص کی توصیف و تعریف کروں جس کے دشمنوں نے حسادت اور دوستوں نے دشمنوں کے خوف سے اس کے فضائل پر پردہ پوشی کی ہو ان دو کرداروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک فضائل کی دنیا آباد ہے۔

وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے فرمایا:{ یا علی ما عرف اللّہ حق معرفتہ غیری و غیرک و ما عرفک حق معرفتک غیر اللّہ و غیری} اے علی! خدا کو میرے اور آپ کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا، اور آپ کو میرے اور خدا کے علاوہ کما حقہ کسی نے نہیں پہچانا۔

وہ علی :جس کی فضائل حساب نہیں کر سکتے ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: اگر تمام درخت قلم، تمام دریا سیاہی، تمام جن حساب کرنے اور تمام انسان لکھنے بیٹھ جائیں تب بھی علی علیہ السلام کے فضائل کا شمار نہیں کر سکتے۔

وہ علی :جس میں تمام انبیاء کی صفات بطور کامل موجود تھیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: جو شخص آدم (ع) کے علم کو، نوح (ع) کے تقویٰ کو، ابراہیم (ع) کے حلم کو اور موسی(ع) کی عبادت کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ علی بن ابی طالب پر نگاہ کرے۔

وہ علی :جونفس پیغمبر ’’ انفسنا‘‘ کی مصداق بن کر میدان مباہلہ میں اترا ۔

وہ علی :جن کی فضائل و کمالات بیان کرنے میں رسول خدا نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی یہاں تک کہ غدیر کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں

کے مجمع میں آپ کا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ جس جس کا میں مولا ہوں اس اس کا یہ علی مولی ہے۔

وہ علی :جو حق کا محور اور مزکر تھا۔ علیّ مع الحقّ و الحقّ مع علیّ و لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامہ؛علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ روز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

وہ علی :جس کے بارے میں رسول خدا نے عمار سے فرمایا: اے عمار! اگر تم دیکھو کہ علی ایک طرف جا رہے ہیں اور دیگر تمام لوگ دوسری طرف جا رہے ہیں تو تم علی کے ساتھ جانا اور باقی لوگوں کو چھوڑ دینا اس لیے کہ علی گمراہی کی طرف رہنمائی نہیں کریں گے اور راہ ہدایت سے الگ نہیں کریں گے۔

وہ علی :جو قسیم النار و الجنہ ہے۔

وہ علی :جسے کھو کر دنیا ایک فقیہ،ایک حکیم،ایک فلسفی،ایک منطقی،ایک انشاپرداز،ایک خطیب،ایک عالم،ایک مومن،ایک مفتی،ایک قاضی،ایک عادل،ایک صف شکن،ایک زاہد،ایک عابد،ایک مجاہد،ایک انسان مجسم اور ایک انسانیت کے عدیم المثال قائد سے محروم ہوگئی۔آخر میں امام علی علیہ السلام کے بارے میں چند اشعار ذکر کر کے اس تحریر کو ختم کرتا ہوں۔

جس نے اصنام کو کعبے سے نکالا وہ علی

ہر اندھیرے کو کیا جس نے اجالا وہ علی

جس نے اس دین کی کشتی کو سنبھالا وہ علی

جو ملائک سے بھی ہے رتبے میں برتر وہ علی

جس کے خدام ہیں سلمان و ابوذر وہ علی

جو ہر جنگ میں ہے سب سے مقدم وہ علی

جس نے مجمع کئے کفار کے برہم وہ علی

صلی اللہ علیہ والہ وسلم

نفس رسول زوج بتول اسد اللہ الغالب

پدر حسنین علی ابن ابی طالب پر لاکھوں سلام

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...