Skip to main content

پاکستان کا سیلاب اور تدبر

 


2022 میں اسی موسم میں بڑا شدید سیلاب آیا تھا  تو میں نے ایک آبی ماہر کے الفاظ آپ کے حوالے کیے تھے ۔آج کچھ قوم پرست اور اُن کے چیلے سوشل میڈیا پر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ڈیم بنانے سے سیلاب نہیں رُکیں گے ۔ارے بابا کیوں نہیں رُکیں گے ۔سیدھی سی بات ھے ڈیموں کا ایک انفرا سٹریکچر ہو نا چاہیے جس میں سے پانی لیک کر کے یا بہا کر گنجائش پیدا کی جاتی ھے تاکہ نیا آنے والا پانی کھپایا جا سکے ۔ خیر وہی 2022 والی  تحریر آپکے پیش  خدمت ھے ))

گارڈنگ گروپ کے دوستو آپکی خدمت عالیہ میں چند حقائق رکھنا چاہوں گا ۔یہ حقائق ماخوذ ہیں دنیا کے ایک بہت بڑے آبی ماہر اور واٹر انجینیر کی گفتگو سے ۔ جی ہاں یہ آبی ماہر جناب شمس الملک ہیں جو ہمارے واپڈا کے چہرمین بھی رہے۔ یہ دنیا یا اس کائینات کے سب سے بڑے آبی ماہرین میں سے ایک ہیں تعلق کے پی کے سے ھے اور ایک پٹھان ہیں۔پاکستان کے حوالے سے اُن کا کہنا ھےکہ

1:: پاکستان ایک نچلی سطح زمین والی ریاست ھے  یعنی زیریں ریاست ھے جبکہ اس کے اطراف کی ساری ریاستیں بالائی ہیں اونچی سطح زمین والی ہیں ۔اس لیے پاکستان میں بارش چاہے کم ہو لیکن بالائی ریاستوں میں بھی اگر زیادہ ہو جائے تو پاکستان میں سیلاب نے آنا ہی آنا ھے کیونکہ قدرتی بھاو پاکستان کی طرف ھے اور بھاو کو روکنا انسانی بس کی بات نہیں ۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لمبائی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا دریا نیل ھے جبکہ پانی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا دریا سندھ ھے جو چائینہ کا پانی اور دریائے کابل کا پانی اپنے اندر لیے پاکستان میں بہتا ھے جس پر تربیلا ڈیم بن چکا جبکہ بھاشا اور کالا باغ اس پر بن سکتے ہیں 

2:: پاکستان کو انگریز نے نہری نظام دیا جو دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے بہترین نظام ھے حالانکہ انگریز  نے ڈیم کے بغیر ڈائریکٹ دریاوں سے متصل نظام وضع کیا ڈیم تو پاکستان بننے کے بعد بنے ۔ لہذا انگریز کا نہری  نظام  بیراج اور ہیڈ سے نہروں اور کھالوں راجبھاوں تک تھا 

نہری نظام کو مزید فعال کرنے اور زیادہ سے زیادہ پانی کو  سٹور کرنے اور پانی کی گزرگاہیں بنا کر پانی کو راستے دے دے کر بہانے اور سمندر تک لے جانے کے لیے پاکستان کو شروع سے ہی ایک (۔  آبی  نظام ۔) کی ضرورت ھے اور سخت ضرورت ھے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مساوات بھی بنائی جو کچھ یوں ھے

نہری نظام + آبی نظام = بے تحاشا زراعت و بجلی

اور ایک آدمی کا نقصان بھی نہیں یعنی سیلاب صفر

3:پاکستان میں ابھی  بھاشا ۔ کالاباغ ۔ کرم تنگی اور فاؤن سٹریم کوٹری  ڈیم بننے باقی ہیں جو منگلے اور تربیلتے سے بڑے ہیں اور زیادہ بجلی پیدا کریں گے

نیز بلوچستان میں ریتلے اور خشک ڈیم بنانے ہوں گے جو سیلابی پانی کو اپنے اندر سمو لیں اور پانی زیادہ ہونے سے ایک ریتلے ڈیم سے دوسرے رتلے ڈیم تک پانی کی گزر گاہ متعین ہو اور پانی اپنی گزرگاہ سے ہوتا ہوا کیج مکران  یا گوادر تک کا سفر طے کرے اور سمندر میں گرے ۔ پانی کو گزرگاہ دینے کا مطلب کہ پانی گزرگا ہ سے ڈیموں کو بھرتا بھرتا گزرے اور سیلابی پھیلاو نہ اختیار کر سکے یا تباہی نہ پھیلا سکے بلکہ خوشحالی پھیلاتا ہوا سمندر کو بھی بھرے یہ ھے بلوچستان کا آبی نظام 

4: پاکستان میں بارش کی شرح بہت کم ھے پھر بھی سیلاب سب کچھ بہا لے جاتا ھے اور تباہ و برباد کر کے چلا جاتا ھے وجہ دو ہیں ایک زیریں ریاست اور دوسری  آبی نظام کا نہ ہونا

آپ دیکھ لیں کہ دنیا کے 195 ممالک میں بارشوں کے اعتبار سے پاکستان کا 145واں نمبر ھے یعنی اتنی کم پھر بھی سیلاب ہی سیلاب جبکہ دنیا میں سب سے زیادہ بارش کولمبیا میں ہوتی ھے لیکن وہاں سیلاب کا کوئی نام و نشان نہیں کیونکہ آبی نظام بہت مظبوط ھے حالانکہ کولمبیا پاکستان سے کئی گناہ غریب ھے 

لیکن یہاں میٹرک پاس جاھل سیاستدان ہیں جو بہت پڑھے لکھے آبی ماہرین کی بات کو مسترد کر دیتے ہیں اور جاھل عوام بھی اُن کی باتوں میں آ جاتے ہیںں 

5::اگر پاکستان نے مظبوط آبی نظام نہ بنایا تو پانی کی کمی یعنی خشک سالی سے بھی مرے گا اور بارشوں میں سیلابوں میں بھی تباہ ہوتا رہے گا  مکان بنیں گے پھر بہہ جائیں گے سڑکیں بنیں گی پھر بہہ جائیں گی بس یہی چلتا رہے گا

میں نے اُن کی گفتگو سے آبی نظام کا ایک سکیچ بھی تیار کر لیا ھے جو آپ اس پوسٹ میں دیکھ سکتے ہیں 

اُن کی گفتگو کو پانچ نکات کی شکل میں آپ تک پہچا کر آپ سے اجازت چاہوں گا لیکن یاد رکھنا یہ الفاظ آپکے پاس میری  امانت ہیں آپ نے اس امانت کو مزید کئی امینوں  تک پہنچانا ھے ۔ زندہ باد شمس الملک زندہ باد پاکستان ۔ تحریر 


و تدوین ( قدیر مصطفائی)

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...