تصوف میں انسانی وجود کو ظاہری اور باطنی جہتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ظاہری پہلو بدنِ خاکی ہے، جبکہ باطنی پہلو روحانی مراکز یا لطائف ہیں، جن کے ذریعے انسان قربِ الٰہی کے مختلف مدارج طے کرتا ہے۔ ان لطائف میں سے ایک نہایت اہم اور نازک لطیفہ "لطیفۂ سری" (Latifa-e-Sirri) ہے، جو سالک کے باطن میں اسرار و مکاشفات کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کی بیداری اور تربیت براہِ راست مرشدِ کامل کی نگرانی اور روحانی توجہ سے ممکن ہوتی ہے۔
لطائفِ باطن کا پس منظر
صوفیاء کرام کے نزدیک انسان کے باطن میں مختلف روحانی مراکز (لطائف) موجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور قرب کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ان کی مشہور ترتیب درج ذیل ہے:
1. لطیفۂ قلب
2. لطیفۂ روح
3. لطیفۂ سری
4. لطیفۂ خفی
5. لطیفۂ اخفی
ان میں لطیفۂ سری ایک درمیانی اور نہایت نازک مقام رکھتا ہے، جو "باطن کا باطن" کہلانے کے لائق ہے۔
لطیفۂ سری کی حقیقت
"سِرّ" عربی زبان میں "راز" یا "باطنی پوشیدگی" کے معنی میں آتا ہے۔ اس اعتبار سے لطیفۂ سری وہ مقام ہے جہاں بندے اور خالق کے درمیان روحانی راز منکشف ہوتے ہیں۔ یہ وہ باطنی چشمہ ہے جہاں سالک کو مکاشفہ، مشاہدہ اور دیدار کے انوار نصیب ہوتے ہیں۔
مقام اور رنگ:
صوفیاء کی مختلف آراء کے مطابق اس لطیفے کا جسمانی مقام بائیں پستان سے دو انگلی اوپر ہوتا ہے۔ اس کی روشنی (نور) کا رنگ سفید بتایا گیا ہے، جو پاکیزگی، صداقت اور الٰہی تجلی کی علامت ہے۔
روحانی فعل:
لطیفۂ سری کا فعل مکاشفہ ہے، یعنی وہ باطنی مشاہدہ جو سالک کو ظاہری حجاب سے نکال کر حقیقت کے قریب لے جاتا ہے۔ اس لطیفے کے بیدار ہونے سے بندے کے دل پر الٰہی اسرار منکشف ہونے لگتے ہیں۔
لطیفۂ سری کی بیداری کا طریق
لطیفۂ سری کی بیداری کوئی عام ذہنی یا فکری مشق نہیں، بلکہ ایک عمیق روحانی عمل ہے جو ذکرِ خفی اور توجۂ مرشد کے ذریعے ہوتا ہے۔
جب مرشد کامل، سالک پر اپنی روحانی توجہ ڈالتا ہے تو اس کے باطن میں اسمِ ذات “اللّٰہ” کی تاثیر حرکت میں آتی ہے۔ یہی حرکت لطیفۂ سری میں نور پیدا کرتی ہے جو رفتہ رفتہ مکاشفے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
صوفیاء کے اقوال:
حضرت خواجہ باقی باللہؒ فرماتے ہیں:
> “لطیفۂ سری وہ آئنہ ہے جس میں تجلیاتِ حق کا عکس سب سے پہلے ظاہر ہوتا ہے۔”
حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مطابق:
> “سری میں اگر ذکر کی لذت پیدا ہو جائے تو سمجھو کہ اسرارِ الٰہی کا دروازہ کھلنے کے
مرشد کی حیثیت اور کردار
تصوف میں مرشد وہ ہستی ہے جو سالک کے ظاہر و باطن کو سنوارتا ہے، اسے طریقت کے مراحل سے گزار کر حقیقت تک پہنچاتا ہے۔ لطیفۂ سری کی بیداری، ذکرِ خاص اور مراقبہ کے تمام منازل مرشدِ کامل کی اجازت اور نگرانی کے بغیر نامکمل ہیں۔
مرشد کی توجہ کا اثر:
مرشد کی توجہ ایک روحانی توانائی ہے جو سالک کے لطائف کو بیدار کرتی ہے۔ مرشد کا فیض اور اجازت دراصل اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے، جو ایک روح سے دوسری روح میں منتقل ہوتی ہے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
> “جس کا کوئی مرشد نہیں، اس کا راہ میں کوئی رہبر نہیں، اور جو بے رہبر ہے وہ منزل تک نہیں پہنچ سکتا.
لطیفۂ سری اور مکاشفہ
جب لطیفۂ سری بیدار ہوتا ہے تو سالک کے باطن میں مشاہدات و مکاشفات کے دروازے کھلتے ہیں۔ وہ ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ باطنی بصیرت سے حقائق دیکھنے لگتا ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سالک کو “مشاہدۂ جمالِ الٰہی” کی جھلک نصیب ہوتی ہے، اگرچہ یہ دیدار عین الیقین کی سطح پر ہوتا ہے، نہ کہ بصری یا جسمانی سطح پر۔
مرشد اور سالک کا تعلق
مرشد اور سالک کا تعلق روحانی باپ اور بیٹے جیسا ہے۔ جس طرح جسمانی تربیت والد کے زیرِ سایہ ہوتی ہے، اسی طرح روحانی تربیت مرشد کے زیرِ نظر ہوتی ہے۔
سالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مرشد کی کامل اطاعت کرے، کیونکہ مرشد ہی اس کے اندر کے پردے ہٹانے والا، باطن کو منور کرنے والا اور لطائف کو فعال کرنے والا ہوتا ہے۔
روحانی ثمرات
لطیفۂ سری کی بیداری سے سالک کے دل میں:
نورِ یقین پیدا ہوتا ہے۔
باطنی چشم روشن ہوتی ہے۔
مشاہدۂ الٰہی کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔
شک و وہم کی تاریکی ختم ہو جاتی ہے۔
اور انسان رضائے الٰہی کے قریب تر ہو جات
لطیفۂ سری تصوف کے اعلیٰ روحانی مدارج میں سے ایک ہے۔ یہ سالک کو معرفتِ الٰہی کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے۔ مگر اس لطیفے کی بیداری اور فیضان مرشدِ کامل کی تربیت، توجہ، اجازت اور ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔
مرشد کی رہنمائی میں سالک جب لطیفۂ سری کے مقام تک پہنچتا ہے تو اسے وہ بصیرت ملتی ہے جو ظاہری آنکھ سے ماورا ہوتی ہے۔ یہی بصیرت انسان کو بندگی کی حقیقت اور قربِ الٰہی کے اسرار سے روشناس کراتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں کسی کامل مرشد کی رہنمائی عطا فرمائے، جو ہمارے لطائف کو منور کرے اور ہمیں سلوک و معرفت کی راہوں پر کامیابی سے گامزن فرمائے۔
آمین۔

Comments
Post a Comment