دریا ناراض کیوں ہیں ؟
۱۔۔۔۔۔ دریائے سندھ
۲۔۔۔۔۔دریائے جہلم
۳۔۔۔۔دریاے چناب
۴۔۔۔۔دریائے راوی
۵۔۔۔۔دریائے ستلج
۶۔۔۔۔دریائے بیاس
۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ہے ایک وقت تھا پنجاب میں یہ چھ دریا تھے ۔
اِن کے اپنے اپنے روٹ تھے۔ اِن کی اپنی اپنی چراگاہیں اور اپنے اپنے جنگل تھے ۔ بڑے بڑے ظرف رکھتے ۔ ہزاروں میل تک پنجاب کی زمین کو سیراب کرتے ہوئے اپنا پانی تقسیم کر کے ہلکی رَو میں سندھ میں جا ملتے اور یوں دھرتی کا سبز وسُرخ حُسن جوبن پر رہتا ۔ لوگ سُکھی بستے تھے ۔
جب برسات کے موسم آتے ۔ چھ کے چھ دریا اپنا پانی اپنے اپنے ظرف میں سمیٹ کر نکل جاتے ۔
اگر پانی ظرف سے چھلکتا تو دائیں بائیں دو تین کلومیٹر کی چراگاہیں اُس پانی کو اپنی گود میں لے لیتی تھیں ۔ یہ چراگاہیں عوام کی سانجھی ملکیت ہوتی تھیں ۔ فطرت کی پرورش کرتی تھیں ، پرندے اور جانور پالتی تھیں ، شکار گاہیں اور جنگل آباد ہوتے تھے
پھر کیا ہوا کہ اہلِ اقتدار نے دریائے بیاس کو ختم کر کے اُس کا آدھا پانی ستلج میں ڈال دیا اور آدھا راوی میں ڈال دیا ، پھر اِن دونوں دریائوں پر ڈیم بنا کر اُس پانی کو بھی روک دیا اور بیاس کا رقبہ لوگوں نے بانٹ لیا ۔
دریائے بیاس کو صرف پنجاب کے اضلاع امرتسر اور جالندھر کے درمیان سے گزار کر فیروزپور میں دریائے ستلج سے ملا دیا۔ چنانچہ اِس کی کل لمبائی جو ہزاروں کلومیٹر تھی ،ختم کر کے 470 کلومیٹر کر دی ۔
دیگر دریائوں پر بھی اتنے زیادہ ڈیم بنا دیے کہ وہ نہریں بن کر رہ گئیں ۔
چراگاہوں پر قبضے کر لیے گئے ۔ دریائوں کے پاٹ میں بستیاں بسا لی گئیں اور سوسائٹیاں بنانے والوں نے دریائوں کو بھول کر زمین میں کنویں ڈال کر پانی کھینچنے شروع کر دیے ۔
یوں شکار گاہیں ختم ، جنگل ختم ، چراگاہیں ختم ، پرندے ختم ، جانور ختم ، دریا کے جسم پر کنکریٹ کی بلڈنگیں ہی بلڈنگیں ۔
مجھے حیرت ہوتی ہے جب کوئی ادیب یا شاعر فطرت کو زندہ رکھنے کی بات کرتا ہے تو اُسے پاگل کیوں کہا جاتا ہے ۔ اِس لیے کہ اہلِ اقتدار اور منافع خور بیوپاری کے لیے وہ غیر منافع بخش باتیں کرتا ہے ۔جبکہ اُنھوں نے فطرت کی لاش سے ہی دولت کے سکے جمع کرنے ہوتے ہیں لہذا اُنھیں ایسا شاعر اور ادیب وارے ہی نہیں کھاتا۔
۔۔۔۔
کیا پاکستانی حکومت اور مقتدر لوگ نہیں جانتے دریائے بیاس کیوں بند کیا ہے ؟ دریاے راوی کے ساتھ اِنھوں نے کیا کیا ہے ؟ دریاے ستلج سے کیا ہاتھ ہوا ہے؟ ۔ بیاس کا کیسا سودا کیا ہے ؟ خدا کی قسم نا عاقبت اندیش ہر بار دھوکا کھاتا ہے ۔ اور ہر بار اپنے غلیظ عمل کو دہراتا ہے ۔
سُنو جب تک دریاے بیاس کو اُس کی زمین واپس نہیں کی جائے گی ، جب تک دیگر دریائوں کی چراگاہیں اور جنگل اُنھیں نہیں لوٹائے جائیں گے ۔
تب تک بستیاں ڈوبتی رہیں گی ،
سیلاب آتے رہیں گے اور بڑے بڑے جگادری لکھاری ایسی چوتیا قسم کی وجوہات اور اسباب لکھتے رہیں گے جن میں
مقتدر اور بیوپاریوں کی عزت پر حرف نہ آئے
Comments
Post a Comment