Skip to main content

غصہ۔۔۔۔۔اصلی و نقلی ہیرے۔۔۔۔۔

 


بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا " ھے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ۔ "

شرط یہ تھی کہ کامیاب جوهری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کر دیا جائے گا ۔ درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے ۔ کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ھوتا تھا ۔ ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ھوا فرشی سلام کے بعد بولا کہ میں وہ میرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں ۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور نا کامی کی صورت میں سر قلم کرنے کی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ھوا ۔ ہیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ھوا اس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ہاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے ۔ شاہی جو ھریوں نے تصدیق کی کے اندھا جیت گیا ھے ۔ بادشاہ بہت حیران ھوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رھی کہ ایک جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا ۔ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی ؟ اندھا بولا یہ تو بہت آسان ھے " میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ھو گئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رھے وہ اصلی تھے ۔ "


بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا ۔


اندھے کی رخصتی کے ساتھ بھی میرا غصہ میری انا میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ھو گئی ۔ مجھے سمجھ آگئی کہ برداشت نرم مزاجی علیمی متانت محبت هی


انسانیت کی معراج ھے ۔ جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا جو نہ سہہ سکا وہ کانچ ۔


میں خاموشی کے ساتھ بابا دین محمد کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔


بابا بولا بیٹا بانو قدسیہ آپ راجہ گدھ میں لکھتی ہیں کہ "جو دبا و سہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ "


مجھے بابا دین محمد نے آج بہت بڑی بات سمجھائی تھی ۔ میں جان گیا تھا کے اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ھے ۔ میں نے پوچھا بابا انسان آخر کب تک برداشت کرے ؟ کب تک لوگو کے طعنے سے ؟ کب تک اپنے غصے کو پئے ؟ آخر برداشت کی کوئی حد ھوتی ھے


با با مسکرایا اور بولا بیٹا اس وقت تک سہنا ھے جب تک ہمیرا نہ بن جاو میں نے پوچھا پھر اس کے بعد ؟


بابا نے کہا ہیرا بنے کے بعد ہیرے پر کوئی دباو کوئی آگ کوئی پیش اثر نہیں کرتی ۔


جس طرح چکنے گھڑے پر پانی نہیں ٹکتا اسی طرح " اصلی " پر کوئی تیر کوئی نشتر کام نہیں کرتا ۔ بندہ جب بندے کے عشق میں مبتلا ھو جاتا ھے تو وہ دنیا کے لئے اور دنیا اس کے لئے بے ضرر ھو جاتی ھے ۔


میں نے کہا انسان کو انسان کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاھئے ؟


بابا دین محمد بولا درخت سے سیکھو جو پھل بھی دیتا ھے اور سایہ بھی


لوگ آتے ہیں اس کے سائے میں ستاتے ھیں پھل کھاتے ھیں اور چلے جاتے ہیں ۔ درخت اسی جگہ کھڑا اگلے مسافر کا انتظار کرتا ھے اور ہر


آنے والے کی آؤ بھگت کرتا ھے ۔ خاموش رھتا ھے کبھی شور نہیں کرتا اپنی


 عنایات کا اعلان نہیں کرتا جتاتا نہیں ۔ اسی طرح بندے کو ھونا چاھئیے ۔ بابا اشفاق صاحب فرماتے تھے کہ کسی آم کے درخت نے کبھی اپنا آم چوس کر نہیں دیکھا ۔ بابا دین محمد بولا درخت نے دان کرنے کی یہ اداماں سے سیکھی ھے جو بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد چار گھنٹے لگا کر گوشت سبزی پیاز پودینے سے ہانڈی پکاتی ھے اور بچوں کے آتے ہی چار گھنٹے کی محنت ان کے سامنے رکھ کر خاموشی سے بچوں کو کھاتا دے کر من بھی من خوش ھوتی ھے ۔ ماتھے کا پسینہ دو پٹے کے پلو سے صاف کر کے سلامت رھو تا قیامت کی دعا دیتی ھے ۔ هم درخت اور ماں کو استادمان کر سب کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ بابا کھڑا ھوا اور ھاتھ ملا کر پارک کے صدر دروازے سے نکل گیا ۔ ۔ ۔ ۔ !


لائک شیئر اور فالو کریں پلیز 


Like Share Follow comment Please

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...