Skip to main content

Posts

Showing posts from May, 2022

پاکستان میں کاروں کا کاروبار اور اسکی تاریخ

  ملک ایسے نہیں چلتے بھائی جان آصف محمود |ترکش |روزنامہ 92 نیوز بلیو ایریا سے نکلا تو سامنے گاڑیوں کی ایک طویل قطار تھی۔یہ اب اسلام آباد کا ہر وقت کا معمول ہے۔ کئی کلومیٹرز تک بمپر ٹو بمپر گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سے کوئی ایک گاڑی بھی پاکستان میں تیار نہیں ہوئی۔ یہ سب گاڑیاں ہم نے قیمتی زر مبادلہ چولہے میں ڈال کر لی ہیں۔گاڑیاں چلانے کا ہمیں بہت شوق ہے لیکن ملک میں ہم نے کوئی گاڑی تیار نہیں ہونے دینی۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 کروڑ36لاکھ ہے۔ان میں 0 2 ہزار بھی ایسی نہ ہوں گی جو یہاں تیار ہوئی ہوں۔ پہلے ہم پوری دنیا میں گھوم پھر کر امداد اور قرض کے نام پر ڈالر اکٹھے کرتے ہیں اور پھر ہم ان ڈالروں کو امپورٹ کے جہنم میں ڈال دیتے ہیں۔ ہر گاڑی کے ساتھ پانچ  ٹائر ہوتے ہیں۔ ایک ’سٹپنی‘ اور چار فعال۔اگر  2 کروڑ36لاکھگاڑیاں سڑک پر ہیں تو یہ11 کروڑ 80 لاکھ ٹائر ہیں جو اس وقت سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔کیا آپ نے کبھی غور کیا یہ ٹائر کہاں سے آتے ہیں؟ بیرون ملک سے۔  پاکستان میں ٹائروں کی صرف ایک کمپنی ہے۔ اجارہ داری امپورٹڈ مال کی ہے۔ چ...

مسلمان اور فتوی سازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ‏جہل پہ مبنی  بد ترین فتویٰ. ایک فتوے نے مسلم تہذیب کو جہالت کے کفن میں لپیٹ دیا۔  پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایجاد کی۔ اسوقت مسلم تہذیب تاریخی عروج پر تھی۔ عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام عراق ایران آرمینیا آذربائیجان ‏اردن سعودی عرب یمن مصر تیونس لیبیا مراکو تک اور یورپ میں یونان روم بوسنیا بلغاریہ رومانیہ اسٹونیا ہنگری پولینڈ آسٹریا کریمیا تک پھیلی ہوئ تھی۔ مذہبی علما نے فتوی دیدیا کہ پرنٹنگ مشین بدعت ہے اس پر قران اور اسلامی  کا چھاپنا حرام ہے۔ عثمانی خلیفہ۔  ‏سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ مشین کے استعمال پر موت کی سزا کا فرمان جاری کر دیا۔ مسلم ممالک پر یہ پابندی 362 سال برقرار رہی۔ ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانہ کا مقابلہ کیسے کرتے؟ کتابوں رسالوں کی فراوانی نے مغرب کو جدید علوم کا سمندر اور مسلم تہذیب کو بنجر ‏سوچ کے جوہڑ میں تبدیل کر دیا۔ جاگے تو فکری بینائی کھو چکی تھی۔ آخر 1817 میں فتوی اٹھا لیا گیا۔ لیکن ان پونے چار سو سال کی پابندی نے مسلم تہذیب کو عقیدوں کا ذہنی غلام بنا دیا۔ از خود سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا۔ یہ فاصلہ...

موسم روٹھ رہیں ہیں سنبھل جائیں

  *قحط پڑنے سے پہلے سدھر جائیں اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کا خیال کریں تحریر لازمی پڑھیں* آنکھیں کھولیے،موسم روٹھ رہے ہیں  آصف محمود  | ترکش | روزنامہ 92 نیوز  گرمی کی تازہ  لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک  اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کے کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجیے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔  ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اورو ساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی ک...

پاکستان کے بڑے شہر اور انکے پرانے نام

  *KNOWLEDGE WORLD 🌍* *Category : _General Knowledge 📚_* *پاکستان کے بڑے شہروں کے نام کیسے پڑے، دلچسپ اور حیران کُن معلومات* *اِسلام آباد:* 1959ءمیں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا،  اس کا نام مذہبِ اِسلام کے نام پر اِسلام آباد رکھا گیا، (ویسے ہم پڑھے لکھے لوگ اِسے *سلاما باد* بھی کہتے ہیں)  *راولپنڈی:* یہ شہر رَاوَل قوم کا گھر تھا،  چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی،  *کراچی:* تقریباً 220 سال پہلے یہ ماہی گیروں کی بستی تھی،  کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اس کا نام کلاچی پڑگیا، پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا،  1925ء میں اسے شہر کی حیثیت دی گئی، 1947ءسے 1959ءتک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا،  *لاہور:* ایک نظریے کے مطابق ہندﺅں کے دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے بعد لاہور نام پڑا،  لاوا کو لوہ سے پکارا جاتا تھا،  اور لوہ (لاوا) کیلئے تعمیر کیا جانیوالا قلعہ ’لوہ، آور‘ سے مشہور ہوا  جس کا واضح معنی ’لوہ کا قلعہ ‘ تھا۔  اسی طرح صدیاں گزرتی گئیں،  اور پھر ’لوہ آور‘ لفظ بالکل اسی طرح لاہور میں بدل گیا، ...

لو لگنے کے اسباب

  دھوپ میں لو لگنے سے موت کیوں ہوتی ہے؟ ہم سب دھوپ میں گھومتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کو دھوپ لگ جانے کی وجہ سے اچانک موت کیوں ہو جاتی ہے؟ 👉 ہمارے جسم کا درجہ حرارت   37 ° ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، اس درجہ حرارت پر ہمارے جسم کے تمام اعضاء صحیح طریقے سے کام کر پاتے ہیں. 👉 پسینے کے طور پر پانی باہر نکال کر جسم 37 ° سینٹی گریڈ درجہ حرارت برقرار رکھتا ہے، مسلسل پسینہ نکلتے وقت پانی پیتے رہنا انتہائی مفید اور ضروری ہے. 👉 اس کے علاوہ بھی پانی بہت کارآمد ہے، جسم میں پانی کی کمی ہونے پر ہمارا جسم پسینے کے ذریعے ہونے والے پانی کے اخراج کو روکتا ہے. (یعنی بند کر دیتا ہے) 👉 جب باہر درجہ حرارت 45 ° ڈگری سے زائد ہو جاتا ہے اور جسم کا کولنگ سسٹم ٹھپ ہو جاتا ہے، تب جسم کا درجہ حرارت 37 ° ڈگری سے زیادہ ہونے لگتا ہے. 👉 جسم کا درجہ حرارت جب 42 ° سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تب خون گرم ہونے لگتا ہے اور خون میں موجود پروٹین پکنے لگتا ہے. اس دوران سانس لینے کے لئے ضروری پٹھے بھی کام کرنا بند کر دیتے ہیں. 👉 جسم کا پانی کم ہو جانے سے خون گاڑھا ہونے لگتا ہے، بلڈ پریشر low ہو جاتا ہے، اہم عضو (بالخ...

دیسی مہینے اور اس کے راز

  دیسی مہینوں کا تعارف اور وجہ تسمیہ 1- چیت/چیتر (بہار کا موسم) 2- بیساکھ/ویساکھ/وسیوک (گرم سرد، ملا جلا)  3- جیٹھ (گرم اور لُو چلنے کا مہینہ)  4- ہاڑ/اساڑھ/آؤڑ (گرم مرطوب، مون سون کا آغاز)  5- ساون/ساؤن/وأسا (حبس زدہ، گرم، مکمل مون سون)  6۔ بھادوں/بھادروں/بھادری (معتدل، ہلکی مون سون بارشیں)  7- اسُو/اسوج/آسی (معتدل)  8- کاتک/کَتا/کاتئے (ہلکی سردی)  9۔ مگھر/منگر (سرد)  10۔ پوہ (سخت سردی)  11- ماگھ/مانہہ/کُؤنزلہ (سخت سردی، دھند)  12- پھاگن/پھگن/اربشہ (کم سردی، سرد خشک ہوائیں، بہار کی آمد) برِصغیر پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس خطے کا دیسی کیلنڈر دنیا کے چند قدیم ترین کیلنڈرز میں سے ایک ہے۔ اس قدیمی کیلنڈر کا اغاز 100 سال قبل مسیح میں ہوا۔ اس کیلنڈر کا اصل نام بکرمی کیلنڈر ہے، جبکہ پنجابی کیلنڈر، دیسی کیلنڈر، اور جنتری کے ناموں سے بھی جانا جاتا ہے۔ بکرمی کیلنڈر کا آغاز 100 قبل مسیح میں اُس وقت کے ہندوستان کے ایک بادشاہ "راجہ بِکرَم اجیت” کے دور میں ہوا۔ راجہ بکرم کے نام سے یہ بکرمی سال مشہور ہوا۔ اس شمسی تقویم میں سال "چیت” کے م...

ہر انسان کی زندگی کے طبی راز

  *ہر انسان کی زندگی میں اہم طبی نمبر*  1. بلڈ پریشر: 120/80  2. نبض: 70 - 100  3. درجہ حرارت: 36.8 - 37  4. تنفس: 12-16  5. ہیموگلوبن: مرد (13.50-18)   خواتین ( 11.50 - 16 )  6. کولیسٹرول: 130 - 200  7. پوٹاشیم: 3.50 - 5  8. سوڈیم: 135 - 145  9. ٹرائگلیسرائیڈز: 220  10. جسم میں خون کی مقدار:  پی سی وی 30-40%  11. شوگر: بچوں کے لیے (70-130)   بالغ: 70 - 115  12. آئرن: 8-15 ملی گرام  13. سفید خون کے خلیات: 4000 - 11000  14. پلیٹلیٹس: 150,000 - 400,000  15. خون کے سرخ خلیے: 4.50 - 6 ملین۔  16. کیلشیم: 8.6 - 10.3 ملی گرام/ڈی ایل  17. وٹامن ڈی 3: 20 - 50 این جی/ملی لیٹر (نینوگرام فی ملی لیٹر)  18. وٹامن B12: 200 - 900 pg/ml    *جو لوگ اوور پہنچ چکے ہیں ان کے لیے تجاویز:*     *40 سال*     *50*     *60*   *پہلا مشورہ:*   ہمیشہ پانی پئیں چاہے آپ کو پیاس نہ لگے یا ضرورت کیوں نہ ہو... صحت کے سب سے بڑے مسائل اور ان میں سے زیادہ تر جسم میں ...

اردو کے مشہور اشعار۔۔۔۔۔۔۔۔

  *🖊 اردو شاعری کی تاریخ میں بہت سے ایسے اشعار ہیں کہ جن کا ایک مصرعہ*  اتنا مشہور ہوا کہ ان کا دوسرا مصرعہ جاننے کی کبھی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی ۔ تو کیا یہ مصرعے ایسے ہی تخلیق ہوئے یا ان کا کوئی دوسرا مصرعہ بھی ہے؟؟؟؟ ۔ جی جناب ان کا دوسرا مصرعہ بھی ہے ۔ ایسے اشعار کا ایک مصرعہ تو مشہور ہو جاتاہے ۔ مگر دوسرا وقت کی دھول میں کہیں کھو جاتا ہے ۔ تو جناب لیجیے  یہاں ایسےاشعار پیش خدمت ہیں جن کا صرف ایک مصرعہ مشہور ہوا ۔ *پڑھیے اور سر دھنیے.* ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام *بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا* ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ خط ان کا بہت خوب' عبارت بہت اچھی *اللہ کر ے زورِ قلم اور زیادہ* ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ نزاکت بن نہیں سکتی حسینوں کے بنانے سے *خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے* ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ یہ راز تو کوئی راز نہیں ،سب اہلِ گلستان جانتے ہیں *ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستاں کیا ہوگا* ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ داور...

عیدی اور شورش کاشمیری

  _ *'عیـــــدی'*_ *شورش کاشمیری* نے یہ نظم آج سے *55 سال قبل* کہی تھی... پ *میں اپنے دوستوں کو عِید پربھیجوں تو کیا بھیجوں* *خدا توفیق  دے تو،  ھدیہء مہر و وفا  بھیجوں* *لڑکپن کی رسِیلی داستانوں کے لبادے میں* *حدیثِ شوق، نقدِ آرزُو، آہِ رساں بھیجوں* *جَوانی کے شگُفتہ وَلولوں کا تذکرہ لِکھ کر* *طبیعت کا تقاضا ھے، دلِ درد آشنا بھیجوں* *وہ راضی ہو تو،اپنی عُمرکے اس دورِآخرمیں* *بیانِ شوق لکھوں، داستانِ ابتلاء  بھیجوں* *'قلم قتلے' ادیبِ شہر ہونے کی رعایت ھے* *غزل کے ریشمیں لہجےمیں نظمِ دلکشا بھیجوں* *کوئی نظمِ شگفتہ، حضرتِ احسان دانش کی* *رشید احمد کے اسُلوبِِ دل آرا کی ادا بھیجوں* *زبانِ  میر،  رنگِ  میرزا،  پیرایہء حالی* *میں اس سہ آتشہ میں،نغمہء بہجت فزابھیجوں* *خیال آتا ھے 'اس بازار' کی نیلام گاھوں میں* *کِسی طوفان کے انداز میں، قہرِ خدا بھیجوں* *برھنہ کَسبیوں کو عید کے ھنگامِ عشرت میں* *فقِہیوں کی قبائیں پھاڑ کر بندِ قبا بھیجوں* *تماشا ھائے عصمت، اور 'عالمگیر کی مسجد'* *خدا کے نام بھی اک محضرِ آہ و بکا بھیجوں* *میری عیدی مذاقِ عام سے ھو مخت...

ٹیپو سلطان کی زندگی اور موت

  ٹیپو سلطان کا یومِ شہادت ۔۔!!!! وہ 20 نومبر 1750 کو پیدا ہوئےاور 4  مئی 1799 کو شہادت پائی. ان کا نام آرکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو مستان ولی کے نام پر رکھا گیا، جن کے مزار پر ان کے والد حیدر علی نے بیٹے کیلئے دعا مانگی تھی. ٹیپو نے  عمر کا بڑا حصہ میدانِ جنگ میں گزرا لیکن جہاں پہلے اس زمانے کے علوم بالخصوص فنونِ سپہ گری میں مہارت حاصل کی، وہاں عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اردو، تامل، کنڑ زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا. اس طرح وہ بیرونی دنیا اور اس کے رجحانات اور اختراعات سے واقف ہوئے. یوں اپنی سلطنت میں کئی اصلاحات لائے. انہوں نے جاگیرداری کا خاتمہ کرکے  کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے.  ٹیپو سلطان بہترین منتظم  اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والے  عوامی رہنما اور قائد تھے۔اپنے 17 سالہ عہدِ حکومت (1782۔1799ء) میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں، سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور د...