ٹیپو سلطان کی زندگی اور موت
ٹیپو سلطان کا یومِ شہادت ۔۔!!!!
وہ 20 نومبر 1750 کو پیدا ہوئےاور 4 مئی 1799 کو شہادت پائی. ان کا نام آرکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو مستان ولی کے نام پر رکھا گیا، جن کے مزار پر ان کے والد حیدر علی نے بیٹے کیلئے دعا مانگی تھی.
ٹیپو نے عمر کا بڑا حصہ میدانِ جنگ میں گزرا لیکن جہاں پہلے اس زمانے کے علوم بالخصوص فنونِ سپہ گری میں مہارت حاصل کی، وہاں عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اردو، تامل، کنڑ زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا. اس طرح وہ بیرونی دنیا اور اس کے رجحانات اور اختراعات سے واقف ہوئے. یوں اپنی سلطنت میں کئی اصلاحات لائے. انہوں نے جاگیرداری کا خاتمہ کرکے کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے.
ٹیپو سلطان بہترین منتظم اور غیر معمولی بصیرت رکھنے والے عوامی رہنما اور قائد تھے۔اپنے 17 سالہ عہدِ حکومت (1782۔1799ء) میں زراعت کی ترقی، آب رسانی کی سہولتوں میں اضافے، نہروں اور تالابوں، سڑکوں اور پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر، چھوٹی بڑی صنعتوں کی ترقی، فوجی و انتظامی اصلاحات اور بیرون ملک و پڑوسی حکمرانوں سے سفارتی روابط اور داخلی معاملات پر گفت و شنید جیسے اہم انتظامی و تعمیراتی امور میں الجھے رہے۔ ان کی شہادت کے بعد ملنے والے چار ہزار سے زائد خطوط کے موضوعات و مندرجات ان کی ایسی کارگزاریوں کا واضح ثبوت ہیں۔
ٹیپو سلطان نے تخت نشینی کے بعد اپنی رعایا کے نام جو پہلا سرکاری فرمان جاری کیا اس میں بلا تفریق مذہب و ملت اپنی رعایا کی اخلاقی اصلاح، ان کی خوشحالی، معاشی و سیاسی ترقی، عدل و انصاف، جاگیرداروں اور زمین داروں کے ظلم وستم سے نجات، مذہبی و لسانی و طبقاتی عصبیت کے خاتمہ، اور دفاع وطن کے لیے جان کی بازی لگادینے کا عزم کیا۔
ٹیپو سلطان مذہبی شعائر کے سختی سے پابند تھے. وہ دن بھر باوضو رہتے. فرامین پر دستخط کرتے ہوئے بسم اللہ اپنے ہاتھ سے لکھتے. لوگوں کو اپنے سامنے جھکنے سے منع کردیا تھا. انہوں نےگدی نشینوں اور مجاوروں کو نذر ونیاز لینے سے بھی روک دیا تھا.
ٹیپو سلطان فرانسیسی دستورِ جمہوریت سے متاثر ہوئے اور ایک مجلس شوریٰ قائم کی جس کا نام ’مجلس غم نباشد‘ تھا دفاعی اور خارجی امور کے سوا تمام اختیارات مجلسِ وزراء کو سونپ دئیے، جس کا میر(وزیراعلی') یعنی صدر الصدور میر صادق کو بنایا. اگرچہ میر صادق، قمر الدین خان اور ہندو وزیر پورنیا کی مخبریوں اور سازشوں نے انہیں المناک انجام تک پہنچایا. ٹیپو کے محاصرے پر انہوں نے گولہ بارود میں مٹی ملوادی اور پھر جب انگریز فوج نے قلعے میں شگاف کرلیا تو عین اسی وقت پورنیا نے محافظ فوجی کو تنخواہ تقسیم کرنے کے نام پر بلایا اور انگریز فوج بلا مزاحمت اندر داخل ہوگئی.
ٹیپو سلطان کو جدت و اختراعات کا خاص شوق تھا۔کئی شہروں کے نام بدل ڈالے۔ مثلاً بنگلور کا نام دارالسرور، کالی کٹ کا اسلام آباد، میسور کا نظر آباد، اور مینگلور کا جمال آباد رکھا۔ وزن اور پیمانوں کے نام بھی تبدیل کردیے۔نیا روپیہ جاری کیااور مختلف نسبتوں سے ان کے نام رکھے مثلاً احمدی، صدیقی، فاروقی، حیدری وغیرہ۔ سن ہجری کی جگہ سن محمدی جاری کیا، جو آغازِ نبوت سے شروع ہوتا تھا.سرنگا پٹم میں جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی بھی قائم کی.
ٹیپو سلطان نے نئی وضع کی بندوقیں اور توپیں بنوائیں، ایسی ڈھالیں تیار کرائیں جن پر تیر یا گولی کا اثر نہیں ہوتا تھا. بحریہ کا مستقل محکمہ بھی قائم کیا. بحری جہازوں کو مقناطیسی چٹانوں سے بچانے کیلئے لوہے کی جگہ تانبے کے پیندے کا استعمال ٹیپو سلطان ہی کی ایجاد ہے. فوجی میزائل(طغرق) ایجاد کرنے کا سہرا بھی انہیں کے سر تھا۔ امریکیوں نے بھی انہیں راکٹ کے بانیوں میں شمار کیا ہے.
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ٹیپو سلطان نے مردم شماری کرائی۔ پنچایت راج کی بنیاد رکھی۔
ٹیپو سلطان نے ہر ہر شہر، قصبہ اور قلعہ کے چار دروازے مقرر کیے جہاں پہرے دار مقرر کیے جس مقام پر چوری ہوجاتی، وہاں کے پولیس افسر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا۔ اگر مجرم گرفتار نہ ہوسکتا تو پولیس افسران کی تنخواہ سے اس کی تلافی کی جاتی۔ ان مقامات پر جہاں ڈاکوؤں کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا، وہاں کے رہنے والوں کو آتشیں اسلحہ رکھنے کی عام اجازت دی جاتی۔ ہر شہر میں قاضی اور ہر گاؤں میں پنچائت مقدموں کا فیصلہ کرتی۔ اپیل کیلئے صدر عدالت (ہائیکورٹ) تھی۔
ٹیپو سلطان نے مجرموں کو سزا کا ایک نیا طریقہ نکالا. مجرم کو اس کے جرم کی مناسبت سے ایک درخت لگانے اور پروان چڑھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ معمولی جرم کے لیے ایسا درخت جس کیلئے کم عرصہ لگتا اور سنگین جرم کیلئے ایسا درخت جس کیلئے کافی محنت و مہلت درکار ہوتی۔
ٹیپو سلطان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اردو اخبار کے بانی تھے۔ 1794ء میں انہوں نے اپنی ذاتی نگرانی میں ایک ہفت روزہ جاری کیا۔ اس ہفت روزہ میں سلطنت کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے سپاہیوں کے نام سلطان کی ہدایات شائع ہوتی تھیں۔ یہ ہفت روزہ سلطان کی شہادت تک مسلسل پانچ سال پابندی سے شائع ہوتا رہا۔
ٹیپو سلطان نے غلاموں اور لڑکیوں کی خرید و فروخت بالکل بند کردی۔ ان کے لیے یتیم خانے بنائے۔ زمین داریوں کا خاتمہ کرکے مزدوروں اور کسانوں کو زمین کا مالک قرار دیا۔ زمین کو رعایا کی ملکیت قرار دیا گیا، زمین پر کسانوں کا دوامی قبضہ تسلیم کرلیا گیا۔ زمین صرف اس کی تھی جو ہل چلائے۔ ٹیپوسلطان نے احکام جاری کردیے تھے کہ جو شخص زمین کے لیے درخواست کرے،اسے اس کی ضرورت کے مطابق زمین مفت دی جائے۔ تجارت کی توسیع کے لیے بیرونی ملکوں سے روابط پیدا کیے۔ دور دور سے کاریگر بلا کر اپنے ہاں ہر قسم کی صنعتیں جاری کیں۔ دوسرے ممالک سے ریشم کے کیڑے منگوا کر ان کی پرورش و پرداخت کا طریقہ اپنی رعایا کو سکھایا۔ اس کے علاوہ جواہر تراشی اور اسلحہ سازی کے کارخانے بھی قائم کیے۔ ان کارخانوں میں گھڑی سازی اور قینچیوں کا کام بھی ہوتا تھا۔ ان کارخانوں کے قیام سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ضرورت کی ہر چیز سلطنت میں تیار ہونے لگی۔ درآمدات پر انحصار کم ہوگیا اور چیزیں برآمد ہونے لگیں۔ ہزاروں کو روزگار ملا۔
ٹیپو سلطان نے ایک نئی تجارتی پالیسی وضع کی جس کے تحت بیرونی ممالک ایران، ترکی اور حجاز وغیرہ سے مسلم تاجروں کو آکر تجارت کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی رعایتیں دیں۔ خود حکومت کی زیر سرپرستی ایک بڑی تجارتی کمپنی بھی قائم کی گئی جس میں ہر شخص سرمایہ لگا کر شریک ہوسکتا تھا۔
سلطان نے جہاں جاگیرداری کو ختم کیا، وہاں سرمایہ داری کے خاتمے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ تمام سلطنت میں رعایا، تاجروں اور کاشتکاروں کے لیے بنک جاری کیے۔ ان میں خاص بات یہ تھی کہ غریب طبقہ اور چھوٹے سرمایہ داروں کو زیادہ منافع دیا جاتا تھا۔ ان تمام اصلاحات اور سلطان کی جدوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے تمام علاقوں میں میسور سب سے زیادہ خوشحال اور سرسبز و شاداب علاقہ ہوگیا۔
کیپٹن لٹل جس نے میسور کی تیسری جنگ میں نمایاں حصہ لیا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھا :
’’ٹیپو کے متعلق بہت سی افواہیں سنی جاتی تھیں کہ وہ ایک جابر و ظالم حکمران ہے۔جس کی وجہ سے اس کی تمام رعایا اس سے بے زار ہے۔ لیکن جب ہم اس کے ملک میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ صنعت و حرفت کی روز افزوں ترقی کی وجہ سے نئے نئے شہر آباد ہوئے اور ہوتے جارہے ہیں۔ رعایا اپنے کاموں میں مصروف و منہمک ہے۔ زمین کا کوئی حصہ بھی بنجر نظر نہیں آتا۔ قابل کاشت زمین جس قدر بھی مل سکتی ہے اس پر کھیتیاں لہرا رہی ہیں۔ ایک انچ زمین بھی بیکار نہیں پائی گئی۔ رعایا اورفوج کے دل میں بادشاہ کا احترام اور محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔ فوج کی تنظیم اور اس کے ہتھیاروں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی مہذب ملک کی فوج سے کسی حالت میں پیچھے نہیں ہے"۔
ایک انگریز صحافی پیٹ آبیر نے اپنی کتاب ‘رائز اینڈ پروگریس آف برٹش پاور ان انڈیا’ میں لکھا... ‘ٹیپو کی شکست کے بعد مشرق کی پوری سلطنت ہمارے قدموں میں آ گری۔
Comments
Post a Comment