Skip to main content

موسم روٹھ رہیں ہیں سنبھل جائیں

 





*قحط پڑنے سے پہلے سدھر جائیں اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بچوں کا خیال کریں تحریر لازمی پڑھیں*

آنکھیں کھولیے،موسم روٹھ رہے ہیں 



آصف محمود  | ترکش | روزنامہ 92 نیوز 

گرمی کی تازہ  لہر نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔لیکن اس لہر اور اس کے خطرناک  اثرات پر بحث، تحقیق اور گفتگو برطانیہ اور امریکہ میں ہو رہی ہے۔ امپیریل کالج لندن اور یونیورسٹی آف ہوائی میں محققین بیٹھے سوچ رہے ہیں کہ موسم کی یہ انگڑائی پاکستان کا کیا حشر کر سکتی ہے لیکن پاکستان کے کسی یونیورسٹی کے لیے یہ سرے سے کوئی موضوع ہی نہیں ہے۔سوئٹزرلینڈ میں بیٹھا ڈاکٹر رابرٹ روڈ دہائی دے رہا ہے کہ موسموں کے اس آتش فشاں کو سنجیدگی سے لیجیے ورنہ ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے لیکن پاکستان کے اہل دانش سیاست کی دلدل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔ 

ندی خشک پڑی ہے اور چشمے کا پانی نڈھال ہے۔مارگلہ کے جنگل میں آج درجہ حرارت 42کو چھو رہا ہے۔ عید پر بارش ہوئی تو درجہ حرارت 22 تک آ گیا تھا لیکن عید سے پہلے اپریل کے آخری دنوں میں بھی یہ 40 سے تجاوز کر گیا تھا۔ مارگلہ میں چیت اورو ساکھ کے دنوں میں ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔ یہ جیٹھ ہاڑ کا درجہ حرارت ہے جو چیت اور وساکھ میں آگیا ہے۔ موسموں کی یہ تبدیلی بہت خطرناک ہے لیکن یہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ اس معاشرے اور اس کے اہل فکرو دانش کو سیاست لاحق ہو چکی اور ان کے لیے سیاست کے علاووہ کسی موضوع پر بات کرنا ممکن نہیں رہا۔ 

 مارگلہ میں موسم گرما اچانک نہیں آتا۔ یہ ایک مالا ہے جس کے ہر موتی کا اپنا رنگ اور اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ہر موسم دوسرے سے الگ اور جداہے۔اسُو یہاں جاڑے کا سندیسہ لے کر اترتا ہے اور چیت اُنہالے کا۔ چیت کے آخری ایام بتاتے ہیں کہ موسم گرما آنے کو ہے۔ وساکھ یہاں موسم گرما کی پہلی دستک کا نام ہے۔درختوں کی چھاؤں میٹھی ہوتی ہے مگر دھوپ میں ذرا سی حدت۔ پھر جیٹھ ہاڑ کی شدید گرمی اور آخرمیں ساون بھادوں کی بارشیں اترتی ہیں جب جنگل پہلی محبت کی طرح حسین ہو جاتا ہے۔

ایسا کبھی نہیں ہو کہ یہ تابستانی رنگ اپنی شناخت کھو دیں۔اس بار مگر وساکھ میں ہی جیٹھ کی حدت آ گئی ہے۔ندی کنارے بیٹھا ہوں، سامنے چشمے بہہ رہا ہے اور چشمے کے کنارے پر ایک کوئل نڈھال بیٹھی ہے۔ زبان باہر کو نکلی ہوئی ہے اور حدت سے اس کے کندھے اوپر کو اٹھے ہوئے ہیں۔ وقفے وقفے سے وہ چشمے میں اترتی ہے، ڈبکی سی لگاتی ہے اور پھر کنارے پر بیٹھ کر پروں کو پھڑ پھڑانے لگتی ہے۔چیت اور وساکھ کی ان دوپہرں میں تو کوئل نغمے سنایا کرتی تھی، آج مگر بدلتے موسم نے اسے گھائل کر چھوڑا۔

موسموں کی اس تبدیلی سے صرف مارگلہ متاثر نہیں ہو گا، پورے ملک پر اس کے اثرات پڑیں گے۔ مارگلہ میں تو درجنوں چشمے ہیں اور ندیاں، کچھ رواں رہتی ہیں کچھ موسموں کے ساتھ سوکھتی اور بہتی ہیں، لیکن جنگل کے پرندوں اور جانوروں کے لیے یہ کافی ہیں۔سوال تو انسان کا ہے، انسان کا کیا بنے گا۔ افسوس کہ انسان کے پاس اس سوال پر غور کرنے کا وقت نہیں۔مریض کو جیسے کوئی موذی مرض لاحق ہو جائے، ایسے اس معاشرے کو سیاست لاحق ہو گئی ہے۔ یہی ہماری تفریح ہے اور یہی ہمارا موضوع  بحث۔ اس کے سوا ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔

ابلاغ کی دنیا ان کے ہاتھ میں ہے جو سنجیدہ اور حقیقی موضوعات کا نہ ذوق رکھتے ہیں نہ اس پر گفتگو کی قدرت۔ نیم خواندگی کا آزار سماج کو لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سر شام ٹی وی سکرینوں پر جو قومی بیانیہ ترتیب پاتا ہے اس کی سطحیت اور غیر سنجیدگی سے خوف آنے لگا ہے۔نوبت یہ ہے کہ دنیا چیخ چیخ کر ہمیں بتا رہی ہے کہ آپ ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن ہمارا دانشور صبح سے شام تک یہی گنتی کر رہا ہوتا ہے کہ کس قائد انقلاب کے جلسے میں کتنے لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔یہی حال سوشل میڈیا کا ہے۔ موضوعات کا افلاس آسیب بن چکا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ماحولیات کی تباہی سے یکسر بے نیاز۔گلی کوچوں سے پارلیمان تک یہ سوال کہیں زیر بحث ہی نہیں کہ درجہ حرارت بڑھنے کا مطلب کیا ہے؟زیر زمین پانی کی سطح جس تیزی سے گر رہی ہے، خوفناک ہے۔ چند سال پہلے اسلام آباد میں 70 یا 80 فٹ پر پانی مل جاتا تھا لیکن اب تین سے چار سو فٹ گہرے بور کرائیں تو بمشکل اتنا پانی دستیاب ہے کہ پانچ سے دس منٹ موٹر چل سکتی ہے۔ موسم کی حدت کا عالم یہی رہا تو پانچ دس سال بعد زیر زمین پانی چھ سات سو فٹ گہرائی میں بھی مل جائے تو غنیمت ہو گی۔ 

اسلام آباد دارالحکومت ہے لیکن پانی کا  بحران اسے لپیٹ میں لے چکا ہے۔ ایک ٹینکر اب دو ہزار کا ملتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ٹینکر بھی تو کنووں سے پانی بھر لاتے ہیں، زیر زمین پانی کی سطح یونہی نیچے جاتی رہی تو ٹینکرز کہاں سے پانی لائیں گے؟ ایک آدھ سیکٹر کو چھوڑ کر سارا شہر اس مصیبت سے دوچار ہے لیکن اپناکمال دیکھیے کہ شہر میں کسی محفل کا یہ موضوع نہیں ہے۔نہ اہل سیاست کا، نہ اہل مذہب کا نہ اہل صحافت کا۔ سب مزے میں ہیں۔

یہ بحران صرف اسلام آباد کا نہیں، پورے ملک کا ہے۔ بس یہ ہے کہ کسی کی باری آج آ رہی ہے کسی کی کل آئے گی۔جب فصلوں کے لیے پانی نہیں ہو گا اور فوڈ سیکیورٹی کے مسائل کھڑے ہو جائیں گے پھر پتا چلے گا کہ آتش فشاں پر بیٹھ کر بغلیں بجانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

جنگل کٹ رہے ہیں، درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے (یعنی کراچی کے سر پر خطرہ منڈلا رہا ہے)، گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور سیلابوں کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ابھی گلگت بلتستان میں گلیشیر کے پگھلنے سے حسن آباد پل تباہ ہوا ہے۔ کئی گھر اس کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ خود اس پل کی تزیراتی اہمیت تھی کہ یہ چین اور پاکستان کو ملا رہا تھا۔ پل کی تزویراتی اہمیت کی نسبت سے یہ حادثہ ہمارے ہاں زیر بحث آ جائے تو وہ الگ بات ہے لیکن ماحولیاتی چیلنج کی سنگینی کو ہم آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔اخبارات، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، پریس ٹاک، جلسہ عام۔۔۔۔کہیں اس موضوع پر کوئی بات ہوئی ہو تو بتائیے۔

مارگلہ کی ندیاں بھی اجنبی ہوتی جا رہی ہیں۔ ابھی چندسال پہلے درہ جنگلاں کی ندی ساون بھادوں میں یوں رواں ہوئی کہ چار ماہ جوبن سے بہتی رہی۔ اب دو سال سے خشک پڑی ہے۔ ساون اس طرح برسا ہی نہیں کہ ندی رواں ہوتی۔ رملی کی ندی بہہ تو رہی ہے مگر برائے نام۔جب پوش سیکٹروں کا سیوریج ان ندیوں میں ملا دیا جائے گا تو ندیاں شاید ایسے ہی ناراض ہو جاتی ہیں۔اب تو یوں لگتا ہے نظام فطرت ہی ہم سے خفا ہو گیا ہے۔موسم ہم سے روٹھتے جا رہے ہیں۔

ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ ماحولیات سے جڑے چیلنجز کی سنجیدگی کو سمجھا نہ گیا تو بہت بڑا اور خوفناک بحران ہماری دہلیز پر دستک دینے والا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...