تعلیم محض کتابی علم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا فکری نظام ہے، جس کے پیچھے مختلف فلسفے کارفرما ہیں۔ ہر فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں کو کس طرح پڑھایا جائے، کیا سکھایا جائے اور تعلیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے۔ ذیل میں ان بڑے بڑے تعلیمی فلسفوں کو دلچسپ اور تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے: ایسینشیلزم (Essentialism) 📚 اس فلسفے کے مطابق تعلیم کا پہلا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو وہ بنیادی مہارتیں سکھائی جائیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے، جیسے پڑھنا، لکھنا اور حساب۔ یہاں استاد کی مرکزی حیثیت ہے اور وہی کلاس روم میں علم کا اصل ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کو ڈسپلن کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ ایک مضبوط بنیاد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ اس سوچ کے مطابق اگر بچے بنیادی مہارتوں پر عبور حاصل کر لیں تو باقی سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ پرینیئلزم (Perennialism) 🏛️ یہ فلسفہ وقت کے امتحان سے گزری ہوئی دانش پر زور دیتا ہے۔ اس میں تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ کلاسیکی ادب، فلسفہ اور آفاقی سچائیوں سے واقف ہوں۔ یہاں بات صرف معلومات حاصل کرنے کی نہیں بلکہ ذہن کو سوچنے، غور کرنے اور گہرائی میں اترنے کی تربیت دی ...
دریا ناراض کیوں ہیں ؟ ۱۔۔۔۔۔ دریائے سندھ ۲۔۔۔۔۔دریائے جہلم ۳۔۔۔۔دریاے چناب ۴۔۔۔۔دریائے راوی ۵۔۔۔۔دریائے ستلج ۶۔۔۔۔دریائے بیاس ۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے ایک وقت تھا پنجاب میں یہ چھ دریا تھے ۔ اِن کے اپنے اپنے روٹ تھے۔ اِن کی اپنی اپنی چراگاہیں اور اپنے اپنے جنگل تھے ۔ بڑے بڑے ظرف رکھتے ۔ ہزاروں میل تک پنجاب کی زمین کو سیراب کرتے ہوئے اپنا پانی تقسیم کر کے ہلکی رَو میں سندھ میں جا ملتے اور یوں دھرتی کا سبز وسُرخ حُسن جوبن پر رہتا ۔ لوگ سُکھی بستے تھے ۔ جب برسات کے موسم آتے ۔ چھ کے چھ دریا اپنا پانی اپنے اپنے ظرف میں سمیٹ کر نکل جاتے ۔ اگر پانی ظرف سے چھلکتا تو دائیں بائیں دو تین کلومیٹر کی چراگاہیں اُس پانی کو اپنی گود میں لے لیتی تھیں ۔ یہ چراگاہیں عوام کی سانجھی ملکیت ہوتی تھیں ۔ فطرت کی پرورش کرتی تھیں ، پرندے اور جانور پالتی تھیں ، شکار گاہیں اور جنگل آباد ہوتے تھے پھر کیا ہوا کہ اہلِ اقتدار نے دریائے بیاس کو ختم کر کے اُس کا آدھا پانی ستلج میں ڈال دیا...