Skip to main content

Posts

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...
Recent posts

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

مولانا روم اور تصوف

  انسان کی زبان وہ ترازو ہے جس پر اس کے اخلاق، کردار، اور روحانی درجہ کا وزن ہوتا ہے۔ زبان سے نکلنے والے الفاظ دلوں کو جوڑ بھی سکتے ہیں اور توڑ بھی سکتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ عرفان اور صوفیاء کرام نے ہمیشہ “خاموشی” اور “گفتگو کے آداب” پر خاص زور دیا ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ، جو عشق، حکمت، اور روحانیت کے سمندر ہیں، انہوں نے گفتگو کے تین دروازوں کا ذکر کر کے دنیا کو وہ درس دیا جو انسان کی گفتار کو نورِ معرفت میں بدل دیتا ہے۔ مولانا رومیؒ کے تین دروازے: زبان سے پہلے دل کا امتحان مولانا رومیؒ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی گفتگو کو زبان سے ادا کرنے سے پہلے تین دروازوں سے گزارنا چاہیے. 1️⃣ پہلا دروازہ: سچائی (The Door of Truth) سب سے پہلے خود سے سوال کرو: "کیا میں جو کہنے جا رہا ہوں وہ سچ ہے؟" اگر جواب “نہیں” ہو تو زبان بند رکھو۔ رومیؒ فرماتے ہیں: > "جھوٹ زبان کی گندگی ہے، جو دل کے نور کو زائل کر دیتا ہے۔" سچ وہ آئینہ ہے جو روح کو صاف کرتا ہے۔ مگر اگر گفتگو سچائی سے خالی ہو تو وہ علم نہیں، فریب بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: > "وَقُولُوا قَوْلًا ...

تصوف کس طرح حاصل ہو

  تصوف میں انسانی وجود کو ظاہری اور باطنی جہتوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ظاہری پہلو بدنِ خاکی ہے، جبکہ باطنی پہلو روحانی مراکز یا لطائف ہیں، جن کے ذریعے انسان قربِ الٰہی کے مختلف مدارج طے کرتا ہے۔ ان لطائف میں سے ایک نہایت اہم اور نازک لطیفہ "لطیفۂ سری" (Latifa-e-Sirri) ہے، جو سالک کے باطن میں اسرار و مکاشفات کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کی بیداری اور تربیت براہِ راست مرشدِ کامل کی نگرانی اور روحانی توجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ لطائفِ باطن کا پس منظر صوفیاء کرام کے نزدیک انسان کے باطن میں مختلف روحانی مراکز (لطائف) موجود ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور قرب کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ ان کی مشہور ترتیب درج ذیل ہے: 1. لطیفۂ قلب 2. لطیفۂ روح 3. لطیفۂ سری 4. لطیفۂ خفی 5. لطیفۂ اخفی ان میں لطیفۂ سری ایک درمیانی اور نہایت نازک مقام رکھتا ہے، جو "باطن کا باطن" کہلانے کے لائق ہے۔ لطیفۂ سری کی حقیقت "سِرّ" عربی زبان میں "راز" یا "باطنی پوشیدگی" کے معنی میں آتا ہے۔ اس اعتبار سے لطیفۂ سری وہ مقام ہے جہاں بندے اور خالق کے درمیان روحانی راز منکشف ہوتے...

تصوف

  تصوف، دراصل انسان کے ظاہر و باطن کی اصلاح اور روحانی کمال کے حصول کا نام ہے۔ صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ انسان کی حقیقت صرف اس کے جسمِ خاکی (عالمِ خلق) تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اندر ایک روحانی وجود بھی ہے جو عالمِ امر سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: > "وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي" (سورۃ الإسراء: 85) یعنی “وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے امر میں سے ہے۔” یہی "امرِ رب" انسان کے اندر مختلف روحانی مراکز کی صورت میں موجود ہے، جنہیں صوفیاء نے "لطائف" کہا ہے۔ ان لطائف کا تزکیہ اور بیداری روحانی ترقی کا بنیادی زینہ ہے۔ لطائف کی تعریف لفظ لطیفہ، "لُطف" سے ماخوذ ہے، جس کے معنی نرمی اور باریکی کے ہیں۔ اصطلاحِ تصوف میں "لطائف" سے مراد وہ باطنی روحانی مراکز ہیں جن کے ذریعے انسان کا دل، روح، عقل، سرّ اور دیگر باطن کے پہلو نورِ الٰہی سے منور ہوتے ہیں۔ یہ لطائف، عالمِ خلق (مادّی دنیا) سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لطائف کی اقسام اگرچہ مختلف صوفی ...

فلسفہ اور تعلیم

  تعلیم محض کتابی علم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا فکری نظام ہے، جس کے پیچھے مختلف فلسفے کارفرما ہیں۔ ہر فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ بچوں کو کس طرح پڑھایا جائے، کیا سکھایا جائے اور تعلیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے۔ ذیل میں ان بڑے بڑے تعلیمی فلسفوں کو دلچسپ اور تفصیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے: ایسینشیلزم (Essentialism) 📚 اس فلسفے کے مطابق تعلیم کا پہلا مقصد یہ ہے کہ بچوں کو وہ بنیادی مہارتیں سکھائی جائیں جن کے بغیر زندگی کا تصور ہی ناممکن ہے، جیسے پڑھنا، لکھنا اور حساب۔ یہاں استاد کی مرکزی حیثیت ہے اور وہی کلاس روم میں علم کا اصل ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ طلبہ کو ڈسپلن کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے تاکہ وہ ایک مضبوط بنیاد کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ اس سوچ کے مطابق اگر بچے بنیادی مہارتوں پر عبور حاصل کر لیں تو باقی سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔ پرینیئلزم (Perennialism) 🏛️ یہ فلسفہ وقت کے امتحان سے گزری ہوئی دانش پر زور دیتا ہے۔ اس میں تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ کلاسیکی ادب، فلسفہ اور آفاقی سچائیوں سے واقف ہوں۔ یہاں بات صرف معلومات حاصل کرنے کی نہیں بلکہ ذہن کو سوچنے، غور کرنے اور گہرائی میں اترنے کی تربیت دی ...

پاکستان کے دریا۔۔۔

  دریا ناراض کیوں ہیں ؟  ۱۔۔۔۔۔ دریائے سندھ  ۲۔۔۔۔۔دریائے جہلم  ۳۔۔۔۔دریاے چناب  ۴۔۔۔۔دریائے  راوی ۵۔۔۔۔دریائے ستلج   ۶۔۔۔۔دریائے بیاس   ۔۔۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے ایک وقت تھا پنجاب میں  یہ چھ دریا تھے ۔  اِن کے اپنے اپنے روٹ تھے۔ اِن کی اپنی اپنی چراگاہیں اور اپنے اپنے جنگل تھے ۔ بڑے بڑے ظرف رکھتے ۔ ہزاروں میل تک پنجاب کی زمین کو سیراب کرتے ہوئے اپنا پانی تقسیم کر کے ہلکی رَو میں سندھ میں جا ملتے  اور یوں دھرتی کا  سبز وسُرخ حُسن  جوبن پر رہتا ۔ لوگ سُکھی بستے تھے ۔  جب برسات کے موسم آتے ۔ چھ کے چھ دریا اپنا پانی اپنے اپنے ظرف میں سمیٹ کر نکل جاتے  ۔  اگر پانی ظرف سے چھلکتا تو دائیں بائیں دو تین کلومیٹر کی چراگاہیں اُس پانی کو اپنی گود میں لے لیتی تھیں ۔  یہ چراگاہیں عوام کی سانجھی ملکیت ہوتی تھیں ۔ فطرت کی پرورش کرتی تھیں ، پرندے اور جانور پالتی تھیں ، شکار گاہیں اور جنگل آباد ہوتے تھے   پھر کیا ہوا کہ اہلِ اقتدار نے دریائے بیاس کو ختم کر کے اُس کا آدھا پانی ستلج میں ڈال دیا...