آج کے دور میں تصوف کو اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ چند پوسٹس، ویڈیوز یا چند اقوالِ بزرگان پڑھ کر خود کو "صوفی" سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ تصوف نہ محض ایک علم ہے، نہ چند معلومات کا مجموعہ، بلکہ یہ جلنے، تڑپنے، اور فنا ہونے کا راستہ ہے۔
تصوف کی منزل علم کا انبار نہیں، بلکہ فقر، معرفتِ الٰہی، اور اللہ کا قرب ہے۔
---
1. قرآن مجید میں تصوف کی بنیاد
تصوف کی اصل قرآن مجید کی اس آیت میں پوشیدہ ہے:
> "وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ"
"اللہ سے ڈرو، اللہ تمہیں علم عطا کرے گا" (البقرۃ: 282)
یہاں واضح ہے کہ حقیقی علم کتابوں یا محض پڑھائی سے نہیں بلکہ تقویٰ اور عمل سے ملتا ہے۔ یہی علم اللہ براہِ راست دل پر نازل فرماتا ہے، جسے علمِ لدنی کہا جاتا ہے۔
---
2. سنتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "من عمل بما علم ورثه الله علم ما لم يعلم"
"جو شخص اس پر عمل کرے جو علم اسے دیا گیا ہے، اللہ اسے وہ علم عطا فرماتا ہے جو وہ جانتا نہ تھا۔"
(مسند احمد، حدیث 22161)
اس سے واضح ہے کہ تصوف صرف معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں بلکہ جو علم ملا ہے، اس پر عمل کرنے سے اللہ مزید روحانی علم عطا کرتا ہے۔
---
3. انبیاء کرامؑ کا طرزِ عمل
تمام انبیاء کرامؑ نے عمل اور مجاہدہ سے گزر کر قربِ الٰہی حاصل کیا:
حضرت ابراہیمؑ نے آگ میں جلنا قبول کیا۔
حضرت موسیٰؑ نے چالیس راتیں کوہِ طور پر عبادت میں گزاریں۔
حضرت یوسفؑ نے قید میں صبر کیا اور اپنے نفس پر قابو رکھا۔
حضرت ایوبؑ نے بیماری اور مصیبت میں شکر کیا۔
یہی جلنے اور تڑپنے کا سفر تصوف کی بنیاد ہے۔
---
4. صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ کی مثالیں
حضرت بلالؓ نے گرم ریت پر "اَحد" کا نعرہ لگایا۔
مولا علیؓ نے عدل اور حق کے لیے اپنی جان قربان کی۔
امام حسینؓ نے کربلا میں باطل کے آگے سر نہ جھکایا۔
ان سب میں مشترک چیز قربِ الٰہی کے لیے جان، مال اور نفس کی قربانی تھی۔
---
5. اولیاء کرام اور صوفیاء کی تعلیمات
حضرت داتا گنج بخشؒ: "تصوف نفس کو مارنے اور دل کو زندہ کرنے کا نام ہے۔"
سلطان باہوؒ: "جس دل میں 'ھو' بس گیا، وہی فقیر ہوا۔"
خواجہ معین الدین چشتیؒ: "فقیری خدمتِ خلق اور فنا فی اللہ کا نام ہے۔"
---
6. فقر کا مفہوم
فقر کا مطلب محتاجی نہیں بلکہ اللہ کے سوا ہر شے سے بےنیازی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "الفقر فخری"
"فقر میرا فخر ہے۔"
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث 5284)
یہی وجہ ہے کہ فقر کا اصل مقام میں کو ختم کر کے صرف تو یعنی اللہ کو باقی رکھنا ہے۔
---
7. تصوف کے خطرات
صرف کتابی علم پر اکتفا کرنا۔
مناظروں اور بحثوں میں پڑ جانا۔
نفس کی اصلاح کے بغیر روحانیت کا دعویٰ کرنا۔
شیطان کے پاس بھی علم اور عبادت تھی، مگر تکبر اور قربِ الٰہی کی طلب نہ ہونے کی وجہ سے مردود ہو گیا۔
---
8. تصوف کی اصل علامتیں
نفس کی موت
زبان کی خاموشی اور دل کی بیداری
آنکھوں میں اشک
خدمتِ خلق
ذکرِ الٰہی میں محویت
تصوف منزل کا نام نہیں، راستہ ہے۔
یہ راستہ مرشد کامل کی نظر، اللہ کے اذن، مسلسل عمل، مجاہدہ، خلوت، گریہ اور توبہ سے طے ہوتا ہے۔
محض پوسٹس پڑھنا یا اقوال یاد کرنا تصوف نہیں، بلکہ یہ خود کو فنا کرنے کا سفر ہے۔
"یا اللہ! ہمیں حقیقی فقر اور تصوف عطا فرما، ہمارے نفس کو مار دے، دل کو اپنے ذکر سے زندہ کر، اور ہمیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرما۔ آمین"
.jpeg)
Comments
Post a Comment