Skip to main content

روح کا مقام

 


 سوال: سنا ہے کہ مرنے کے بعد قبر میں حساب کتاب ہوتا ہے جبکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جسم روح کا لباس ہے ، جب روح ہی پرواز کر جاتی ہے تو لباس سے قبر میں کیا حساب کتاب ہوتا ہے؟ روحانی نقطۂ نظر سے تفصیل بیان فرما دیں ۔


جواب: جس طرح لباس کی اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی اس طرح جسم بھی روح کا لباس ہے۔ جو روح کا جسم سے تعلق ختم کرنے پر بے جان ہو کر لمحہ بہ لمحہ ختم ہو جاتا ہے۔ کسی بھی قبر کو آپ دو ہفتے کے بعد کھول کر دیکھیں یا ایک مہینے کے بعد کھول کر دیکھیں تو وہاں جسم نہیں ہوتا ہڈی ہوتی ہے۔ سال بھر کے بعد کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوا ہڈیاں بھی نہیں ہوتیں۔ جسم روح کا لباس ہے اورلباس سے تو کوئی سوال جواب ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً ایک آدمی شلوار کرتا ٹوپی وغیرہ بانس کو پہنا کر کھڑا کر دیں اور اس سے آپ سوال جواب کریں یہ لباس کیا جواب دے گا۔ اس لباس کو آپ پھاڑ دیں تب بھی اس کی طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہو گی۔ اس میں آگ لگا دیں لباس جل جائے گا لیکن ایک آہ بھی نہیں نکلے گی۔

قبر میں جسم اس لئے رکھا جاتا ہے تاکہ انسان کی بے حرمتی نہ ہو اور یہ قبر میں رکھنے کا رواج کوئی اسلامی نہیں ہے۔ یہودیوں کے زمانے سے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے زمانے سے یہ قبریں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ تو یہ انسانی عظمت کو خراب نہ کرنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ دیکھیں اب ایک آدمی مر گیا، اُس کی آپ لاش چھوڑ دیجئے، اب وہ پھولے گا، سڑے گا ،اُس میں بدبو ہو گی، تعفن ہو گا، اُس میں کیڑے پڑیں گے، گِدھ کھائیں گے، کوے کھائیں گے ، چیلیں کھائیں گی، چیونٹییاں لگیں گی، بلی ،کتے بھیڑیئے، سب آ کر اُسے کھائیں گے ، تو یہ آدمی کی ایک طرح سے بے عزتی ہو گی۔ تو اس بے عزتی سے بچانے کے لئے اور انسانیت کا احترام برقرار رکھنے کیلئے یہ قبر کا تصور قائم ہوا ۔ اور یہ حضرت آدم علیہ السّلام سے چل رہا ہے۔ ہابیل اور قابیل کا قصہ آپ نے سنا ہو گا وہاں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ جسم کو اگر ہم روح کا لباس مان لیتے ہیں تو اس پر کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔ اِس جسم کے اوپر ایک اور روشنیوں کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے اور وہ اس جسم سے ۹ انچ اوپر ہوتا ہے وہ سارا حساب کتاب جزا و سزا سب اس کے اوپر ہوتا ہے ، اور وہ چیز جو ہے وہ عالمِ اَعراف میں رہتی ہے۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ روح جب عالمِ اعراف میں چلی گئی تو قبرستان میں کیا رکھا ہے۔ وہاں تو مٹی کا ڈھیر ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ قبرستان میں کچھ بھی نہیں رکھا۔ جسم تو مٹی ہو گیا لیکن جس جگہ جسم کو ہم دفناتے ہیں آدمی کا اسی مناسبت سے اَعراف بنتا ہے۔ یعنی زمین سے ۲۰۰ میل اوپر اس کا اَعراف بنتا ہے۔ زمین سے ۲۰۰ میل اوپر ایک اور دنیا آباد ہے۔ بالکل اسی طرح کی جیسے کہ یہ دنیا ہے۔ اس کو ہم عالمِ اَعراف کہتے ہیں۔ اب اس کی مثال یوں ہے کہ ایک پلازہ ہے۔ اس کی ۲۰۰ منزلیں ہیں تو جو زندہ آدمی ہیں مثال کے طور پر وہ پہلی منزل پر رہتے ہیں اور جو مرے ہوئے آدمی ہیں وہ دسویں منزل پر رہتے ہیں تو اس کا تعلق اس زمین سے قائم ہے کہ پلازہ بغیر زمین کے قائم نہیں رہتا۔

ایک بات اور غور طلب یہ ہے کہ عالمِ اعراف جو ہے وہ زمین کے کُرہ سے باہر نہیں ہے۔ عالمِ اَعراف زمین کے کُرہ میں ہے تو جہاں اس کو دفن کرتے ہیں کسی مردہ جسم کو تو اس کا وہاں سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ اُس گھر سے، اُس قبر سے، لیکن وہ رہتا عالمِ اَعراف میں ہے۔ تو جب ہم کسی قبر پر جاتے ہیں تو ہمارا تعلق اس بندے کے ساتھ عالمِ اعراف سے قائم ہو جاتا ہے۔ انسان جب قبرستان جاتا ہے، وہاں جا کے بیٹھتا ہے، کچھ پڑھتا ہے، ایصالِ ثواب کرتا ہے، تو اس کے اندر وہ صلاحیت کام کرنے لگتی ہے جو صلاحیت یہاں سے ۲۰۰ میل اوپر دیکھتی ہے ۔ یعنی اِیصالِ ثواب پہنچانا اِس بات کی نشاندہی ہے کہ انسان کے اندر ایسی صلاحیت کام کر رہی ہے یا ایسی نظر کام کر رہی ہے جو ۲۰۰ میل اوپر بھی دیکھ سکتی ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تم قبرستان جاؤ تو کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ (اے قبرستان میں رہنے والے السّلام علیکم)۔ ظاہر ہے حضورﷺ کی کوئی بات غلط تو ہو نہیں ہو سکتی ،، بغیر حکمت کے نہیں ہو سکتی ۔ تو حضورﷺ نے جب یہ فرمایا کہ قبرستان جا کے کہو ’’السّلام علیکم یا اہل القبور‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر میں رہنے والے لوگ ہمارا سلام سنتے ہیں اور وہ ہمارے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں لیکن تم سن نہیں سکتے۔ لیکن اگر ہم اس صلاحیت کو بیدار اور متحرک کر لیں ، یعنی لاشعوری صلاحیت کو یا روحانی صلاحیت کو ، تو ہم اُن کی آواز سن بھی سکتے ہیں اور اّنہیں دیکھ بھی سکتے ہیں۔ ان سے رابطہ بھی قائم کر سکتے ہیں اور یہ اولیاء کا عام قاعدہ ہے… کشف القبور… تصوف میں ایک باقاعدہ اصطلاح ہے،  لوگ جاتے ہیں، آنکھیں بند کر کے بیٹھتے ہیں، کچھ پڑھتے ہیں جو عالمِ اَعراف میں لوگ ہیں وہ سامنے آ جاتے ہیں۔ قبر کا جو تعلق ہے، جو گوشت پوست کا بنا ہوا جسم ہے، اس سے حساب کتاب نہیں ہوتا بلکہ اُس گوشت پوست کے اوپر ایک اور روح کا بنا ہوا جسم ہوتا ہے، مکمل جسم ہوتا ہے جسے جسمِ مثالی کہا جاتا ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!


  بحوالہ کتاب         ــــــــــــــــ       روح کی پکار          

        مصنف   ــــــــــ  خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...