Skip to main content

امام حسین علیہ السلام کا مکہ سے کربلا تک کا سفر



 مکہ سے کربلا تقریباً 1731 کلومیٹر ہے۔ 


یہ فاصلہ گوگل میپ کے مطابق 18 گھنٹے بذریعہ  مشینری مطلب گاڑی وغیرہ میں طے کیا جا سکتا ہے مگر آج سے1381  سال پہلے یہ فاصلہ ایک مُشکل اور تکلیف دہ راستہ تھا، جس پر امام حُسین علیہ السلام نے اپنا سفر 8 ذلحج 60 حجری یعنی 10 ستمبر 680 عیسوی کو اپنے اہل خانہ کیساتھ شروع کیا۔


سفر شروع کرنے کے بعد تاریخ کی کتابوں میں 14 مختلف مقامات کا ذکر ملتا ہے، جہاں امام نے یا پڑاؤ کیا یا مختلف لوگوں سے ملے اور یا لوگوں سے خطاب کیا۔۔

اس آرٹیکل میں ان 14 مقامات کا سرسری ذکر کیا جائے گا تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں سفر اور راستے کی تھوڑی آگاہی ہوسکے۔


نمبر 1:  الصفا

یہ پہلا مقام تھا امام اس جگہ پر عرب کے مشہور شاعر الفرزدق سے ملے اور اُس سے کوفہ کے حالات پُوچھے ، شاعر بولا ” کوفہ والوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور اُن کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں”۔

شاعر نے امام کو کوفہ جانے سے روکا، مگر امام اپنا سفر شروع کر چُکے تھے۔


نمبر 2: ذات عرق

مکہ سے کوفہ جاتے ہُوئے یہ دوسرا مقام ہے جو مکہ سے تقریباً 92 کلومیٹر پر ہے، اس مقام پر امام اپنے کزن عبداللہ ابن جعفر سے ملے اور اس مقام پر عبداللہ ابن جعفر نے اپنے دونوں بیٹوں عون اور مُحمد کو امام کی خدمت میں پیش کیا اور ساتھ ہی امام کو کوفہ جانے سے روکا، جس پر امام نے جواب دیا: 

”میری منزل اللہ کے ہاتھ میں ہے”۔


نمبر 3: بطن الروما۔

یہ مقام ذات عرق سے کُچھ کلومیٹر آگے ہے یہاں امام نے قیس بن مشیر کے ہاتھ کوفہ والوں کو خط لکھا اور یہاں امام کی مُلاقات عبداللہ بن مطیع سے ہُوئی جو عراق سے آرہا تھا۔ عبداللہ نے امام کو آگے جانے سے روکا اور بولا ” کوفہ والوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا وہ اہل وفا میں سے نہیں" مگر امام نے اپنا سفر جاری رکھا۔


نمبر 4: زرود۔۔

حجاز کی پہاڑیوں پر یہ ایک چھوٹا سا ٹاون تھا اور یہاں پر حجاز کی پہاڑیوں کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور عرب کا تپتا ریگستان شروع ہوتا ہے۔ یہاں امام کی مُلاقات زُہیر ابن القین سے ہُوئی۔ اُسے جب پتہ چلا کہ امام کس مقصد کے لیے جارہے ہیں تو اُس نے اپنا تمام سامان اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اُسے کہا کہ تم گھر جاؤ میری خواہش ہے کہ میں امام کے ساتھ قتل ہو جاؤں۔


نمبر 5: زبالہ

اس مقام پر امام کی مُلاقات دو آدمیوں سے ہُوئی جن کا تعلق عرب کے قبیلہ اسدی سے تھا انہوں نے امام کو کوفہ والوں کے ہاتھوں جناب مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر دی۔ 

امام نے فرمایا "بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور بیشک وہ ہماری قُربانیوں کا حساب رکھنے والا ہے”۔

اس مُقام پر امام نے اپنے ساتھ چلنے والوں کو بتایا کے جناب مُسلم اور جناب ہانی کو شہید کر دیا گیا ہےاور کوفہ والے ہماری نُصرت نہیں کریں گے، امام نے اس مقام پر فرمایا جو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے واپس چلا جائے۔


بہت سے قبائل جو راستے میں امام کے ساتھ اس اُمید پر چل پڑے تھے کہ اُنہیں مال و دولت ملے گی اس مقام پر ادھر اُدھر بکھر گئے اور واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور امام کے ساتھ اُن کے اہل خانہ سمیت تقریباً پچاس لوگ رہ گئے۔


نمبر 6: بطن العقیق

اس مُقام پر امام اکرمہ قبیلے کے ایک آدمی سے ملے جس نے امام کو آگاہ کیا کہ "کوفہ میں آپ کا کوئی دوست نہیں، کوفہ کو یزید کے لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے اور اُس کے داخلی اور خارجی دروازے بند کر دئیے ہیں اور کوفہ تشریف نہ لے جائیں” ۔ یہاں بھی امام نے اپنا سفر جاری رکھا۔


نمبر 7: Sorat

اس مُقام پر امام نے رات بسر کی اور صبح اپنے قافلے سے کہا کہ جتنا پانی ہوسکتا ہے ساتھ لے لیں۔


نمبر 8: شرف

اس مُقام پر امام کے ساتھیوں میں سے ایک چلایا کے اُس نے ایک لشکر کو اپنی طرف آتے دیکھا ہے، امام فوراً قافلے کا رُخ موڑ کر قریب ایک پہاڑ کے پیچھے لے گئے۔


نمبر 9:  ذو حسم۔۔

اس مُقام پر امام کی مُلاقات حُر اور اُس کے ایک ہزار سپاہیوں ہُوئی جو پیاسے تھے، امام نے سب کو پانی پلانے کا حُکم دیا اور بذات خُود بھی سب کو پانی پلایا اور جانوروں کو بھی پانی پلایا گیا، اس مُقام پر ظہر کی نماز ادا کی گئی اور سب نے ملکر امام کی امامت میں نماز ظہر ادا کی۔


اس مُقام پر امام نے حُراور اُس کی فوج سےخطاب کیا اور فرمایا ، مفہوم” او اہل کوفہ تُم لوگوں نے میرے پاس اپنے قاصد بھیجے اور مُجھے خطوط لکھے کہ تُم لوگوں کے پاس کوئی امام نہیں اور میں کوفہ آؤں اور تم لوگوں کو اللہ کے راستے میں اکھٹا کرؤں اور تم لوگ میری بیعت کر سکو، تم لوگوں نے لکھا کے آپ اہل بیعت ہیں اور ہمارے معاملات کو اُن لوگوں کی نسبت جو ناانصافی کرتے ہیں اور غلط ہیں، بہتر طریقے سے حل کر سکتے ہیں، مگر اگر تُم لوگوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور مُنکر ہوگئے ہو اور اہل بیعت کے حقوق نہیں جانتے اور اپنے وعدوں سے پھر گئے ہوتو میں واپس چلا جاتا ہُوں”۔

حُر کے لشکر نے امام کو واپس نہیں جانے دیا اور اُنہیں گھیر کر کوفہ کی بجائے کربلا کی طرف لے گئے۔


نمبر 10:  بیضہ

امام اگلے دن بیضہ پہنچے اور اس مقام پر پھر حُر کے لشکر سے خطاب کیا آپ نے فرمایا، مفہوم "لوگو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص ایسے بادشاہ کو دیکھے جو ظالم ہو اللہ کے حرام قرار دئیے کو حلال کہے ، خُدائی عہدوپیمان کو توڑے ، سنت رسول کی مخالفت کرے اور اللہ کے بندوں پر گُناہ اور زیادتی کیساتھ حکومت کرتا ہو، تو وہ شخص اپنی زبان اپنے فعل اور اپنے ہاتھ سے اُس بادشاہ کو نہ بدلے تو اللہ کو حق پہنچتا ہے کے ایسے شخص کو اُس بادشاہ کی جگہ جہنم میں داخل کرے”۔

امام نے اس مُقام پر مزید فرمایا ، مفہوم” لوگو تمہیں معلوم نہیں کہ جن لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیارکی اور اللہ سے مُنہ پھیرا، مُلک میں فساد برپا کیا، حدود شرح کو معطل کیا اور مال غنیمت کو اپنے لیے مختص کر دیا، ایسی صورت میں مُجھ سے زیادہ کس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی کوشش کرے، میرے پاس تمہارےقاصد آئے اور خطوط پہنچے کے تُم نے بیعت کرنی ہے اور تُم میرے مدد گار بنو گے اور مُجھے تنہا نہ چھوڑو گے، پس اگر تُم اپنا وعدہ پُورا کرو گے تو سیدھے راستے پر پہنچو گے”۔


امام نے یہاں لوگوں کو اپنے حسب اور نسب کا حوالہ دیا اور فرمایا، مفہوم "اگر تُم اپنے وعدے سے پھر جاؤ گے تو تعجب نہیں، تُم اس سے پہلے میرے والد اور میرے چچا زاد بھائی مُسلم کیساتھ ایسا ہی کر چُکے ہو اور عنقریب اللہ مُجھے تمہاری مدد سے بے نیاز کر دے گا”۔


امام کی تقریر سُن کر حُر نے امام سے کہا کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپکو قتل کر دیا جائے گا، امام نے فرمایا "تُم مُجھے موت سے ڈراتے ہو اور کیا تمہاری شقاوت اس حد تک پہنچے گی کہ مُجھے قتل کر دو گے”۔


حُر کے لشکر پر کوئی اثر نہ ہُوا اور وہ امام کو کربلا کی طرف گھیر کر لیجاتے رہے۔


نمبر 11: عزیب الحجنات۔

اس مُقام پر امام کی مُلاقات طرماح بن عدی سے ہُوئی جس نے امام کو کوفے والوں کے خطرناک ارادے سے آگاہ کیا، جسے امام پہلے ہی جانتے تھے اور امام سے اپنے ساتھ کوہ آجاہ چلنے کی درخواست کی تاکہ امام وہاں پناہ لے سکیں۔ امام نے فرمایا، مفہوم "اللہ تعالی تمہیں اور تمہاری قوم کو جزائے خیر دے، ہم میں اور ان لوگوں میں عہد ہو چُکا ہے اور اب ہم اس عہد سے پھر نہیں سکتے”۔


نمبر 12: قصر بنی مقاتل۔۔

فیصلہ ہوچُکا تھا کہ امام کو کوفہ نہیں جانے دیا جائے گا چنانچہ حُر کے لشکر نے کوفہ کا راستہ بدل کر امام کوگھیر کر کربلا کی طرف لیجانا شروع کیا اور امام راستے میں قصر بنی مقاتل رُکے اور شام کے وقت میں امام نے فرمایا ” بیشک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں”۔


امام کے 18 سالہ بیٹے علی اکبر امام کے قریب آئے تو امام نے فرمایا کہ اُنہوں نے خواب میں کسی کو کہتے سُنا ہے کہ یہ لوگ اُنہیں قتل کرنے والے ہیں۔ جس پر جناب علی اکبر نے امام کو تسلی دی اور فرمایا، مفہوم ” کیاہم سیدھے راستے پر نہیں ہیں”۔


نمبر 13: نینوا۔۔

اس مُقام پر حُر کو ابن زیاد کا خط ملا جس میں اُس نے لکھا تھا کہ امام جہاں ہیں اُنہیں وہیں روک لواور اُنہیں ایسی جگہ اُترنے پر مجبور کردو جہاں پانی اور ہریالی نہ ہو۔

حُر نے امام کو ابن زیاد کے خط سے آگاہ کیا۔ آپ نے فرمایا ہم اپنی مرضی سے نینوا میں خیمہ زن ہوں گے۔ جس پر حُر نے کہا کہ ابن زیاد کے جاسوس ہر چیز کی نگرانی کر رہے ہیں لہذا میں آپ کو ایسا نہیں کرنے دے سکتا، پھر امام کا قافلہ ایک مقام پر پہنچا تو امام نے پُوچھا اس جگہ کا کیا نام ہے؟ کسی نے جواب دیا کربلا۔ امام نے فرمایا یہ کرب و بلا کی جگہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں قتل کیا جائے گا۔


نمبر 14: کربلا

امام کے حکم پر کربلا کے میدان میں خیمے گاڑ دئیے گئے ۔ دریائے فرات خیموں سے کُچھ میل کے فاصلے پر تھا اور یہ 2 محرم 61 ہجری کا دن تھا اور عیسوی کلینڈر پر 3 اکتوبر 680 کی تاریخ تھی۔


نوٹ: اس آرٹیکل میں کربلا کے حالات تفصیلاً بیان نہیں کیے جارہے ۔ 

اس آرٹیکل کا مقصد امام کے مکہ سے کربلا تک کے سفر میں آنے والی منازل اور چیدہ چیدہ واقعات کا ذکر کرنا تھا  تاکہ جو لوگ نہیں جانتے اُنہیں 1731 کلومیٹر کے امام کے اس سفر کی تھوڑی آگاہی ہو 

نقل شدہ مضمون ۔


#copyed

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...