ڈبل شاہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ کردار
وہ شخص جس نے بڑی محنت سے اپنی عاقبت خراب کی 😥
سبط الحسن نے بمشکل بی ایس سی اور بی ایڈ کیا اور وزیر آباد کے قریب نظام آباد کے گورنمنٹ ہائی سکول میں سائنس کا استاد بھرتی ہو گیا۔
تنخواہ کم تھی اور اس کے خواب بہت اونچے تھے جو اس تنخواہ میں پورے نہیں ہو سکتے تھے ، جلد ہی وہ نوکری سے اکتا گیا۔
اس نے آفس سے چھٹی لی اور 2004ء میں دوبئی چلا گیا۔
وہ چھ ماہ دوبئی رہا۔ چھ ماہ بعد کچھ رقم پس انداز کر کے نظام آباد واپس آگیا۔
نظام آباد میں اس نے ایک عجیب کام شروع کیا۔
اس نے اہنے ہمسائے جاوید سے کچھ رقم منافع کے ساتھ واپسی کی یقین دھانی پر حاصل کی ، یہ ہمسایہ جاوید ماربل کے نام سے ماربل کا کاروبار کرتا تھا۔ جاوید نے رقم دے دی اور ٹھیک پندرہ دن بعد منافع کے ساتھ دوگنی رقم اسے واپس مل گئی۔ یوں جاوید اس کا پہلا گاہک بنا۔ اس نے سب کو بتایا کہ وہ آن لائن کرنسی اور ٹریڈنگ کا کام کر رہا ہے جس میں بہت زیادہ منافع ہے۔ لہذا جو بھی اس کے ساتھ سرمایہ کاری کرے گا وہ پندرہ دن بعد اسے دگنی رقم لوٹا دے گا۔
محلے کے ہی دو لوگ اس کے اگلے گاہک بنے اور وہ بھی پندرہ دنوں میں دوگنی رقم کے مالک ہو گئے۔
یہ دو گاہک اس کے پاس مزید پندرہ گاہک لے آئے۔ اور پھر یہ پندرہ گاہک بڑھتے بڑھتے ایک ہی مہینے میں ڈیڑھ سو گاہک ہو گئے۔
یوں دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی لائین لگ گئی۔ لوگ زیورات بیچتے، گاڑی، دکان، مکان اور زمین فروخت کرتے، اور رقم اس کے حوالے کر دیتے۔ ریٹائرڈ لوگوں اور بیواوّں نے اپنی جمع پونجی اس کے حوالے کردی ، وہ یہ رقم دوگنی کر کے واپس کر دیتا۔ یہ کاروبار شروع میں صرف نظام آباد تک محدود تھا۔
لیکن پھر یہ وزیر آباد‘ سیالکوٹ اور گوجرانوالہ تک پھیل گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ عام سا سکول ماسٹر ارب پتی ہو گیا۔ یہ کاروبار 18 ماہ جاری رہا۔ اس شخص نے ان 18 مہینوں میں 43 ہزار لوگوں سے 7 ارب روپے جمع کر لئے.
جب کاروبار پھیل گیا
تو اس نے اپنے رشتے داروں کو بھی شامل کر لیا۔ یہ رشتے دار سمبڑیال‘ سیالکوٹ‘ گجرات اور گوجرانوالہ سے رقم جمع کرتے تھے۔ پانچ فیصد اپنے پاس رکھتے تھے، اور باقی رقم اسے دے دیتے۔ وہ شروع میں پندرہ دنوں میں رقم ڈبل کرتا تھا۔ یہ مدت بعدازاں ایک مہینہ ہوئی۔ پھر دو مہینے اور آخر میں 70 دن ہو گئی۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔
لیکن پھر اس کے برے دن شروع ہوگئے۔
وہ اداروں کی نظر میں آ گیا۔ تحقیقات شروع ہوئیں
تو پتہ چلا وہ شخص *"پونزی سکیم"*
چلا رہا ہے۔ پونزی مالیاتی فراڈ کی ایک قسم ہوتی ہے ،
جس میں رقم جمع کرنے والا شروع میں چند گاہکوں کو اپنی جیب سے منافع ادا کرتا ہے اور گاہک بڑھ جانے پر نئے گاہکوں کی رقم سے پرانے گاہکوں کو ان کی اصل رقم سے منافع لوٹاتا رہتا ہے ، یوں وہ اک سائیکل بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ شروع کے گاہکوں کو دوگنی رقم مل جاتی ہے۔ لیکن آخری گاہک سارے سرمائے سے محروم ہو جاتے ہیں۔
یہ وزیرآبادی شخص بھی اپنے گاہکوں کے ساتھ پونزی کر رہا تھا۔ یہ لوگوں کو لالچ دے کر لوٹ رہا تھا۔اور دھڑادھڑ اپنی رقوم اس کے حوالے کر ریے تھے۔
اداروں نے اس کے گرد گھیرا تنگ کر دیا. اس دوران *”ڈیلی نیشن“* میں اس کے خلاف فراڈ کی لیڈ لائن لگ گئی۔
گوجرانوالہ ڈویژن میں کہرام برپا ہو گیا۔ اور سیّد سبط الحسن عرف ڈبل شاہ 13اپریل 2007ء کو گرفتار ہو گیا۔
جس کا شمار پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیوں میں ہوتا تھا۔ اس نے صرف ڈیڑھ سال میں تین اضلاع سے سات ارب روپے جمع کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔
یہ شخص اپریل 2007ء کو نیب کے شکنجے میں آ گیا۔ نیب نے اس کی جائیداد‘ زمینیں‘ اکاﺅنٹس اور سیف پکڑ لئے‘ یہ رقم تین ارب روپے بنی، اور اس نے یہ تین ارب روپے چپ چاپ اور بخوشی نیب کے حوالے کر دیئے.
ڈبل شاہ کا کیس چلا.
اسے یکم جولائی 2012ء کو 14 سال قید کی سزا ہو گئی.
جیل میں دن اور رات گنے جاتے ہیں، چنانچہ ڈبل شاہ کے 14 سال عملاً 7 سال تھے. عدالتیں پولیس حراست‘ حوالات اور مقدمے کے دوران گرفتاری کو بھی سزا سمجھتی ہیں.
ڈبل شاہ 13 اپریل 2007ءکو گرفتار ہوا تھا‘
وہ عدالت کے فیصلے تک پانچ سال قید کاٹ چکا تھا‘ یہ پانچ سال بھی اس کی مجموعی سزا سے نفی ہو گئے‘
پیچھے رہ گئے دو سال‘ ڈبل شاہ نے محسوس کیا
چار ارب روپے کے عوض مزید دو سال قید مہنگا سودا نہیں،
چنانچہ اس نے نیب سے پلی بارگین کی بجائے سزا قبول کر لی.
جیل میں اچھے چال چلن‘ عید‘ شب برات اور خون دینے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو سزا میں چھوٹ مل جاتی ہے. ڈبل شاہ کو یہ چھوٹ بھی مل گئی. چنانچہ وہ عدالتی فیصلے کے 23 ماہ بعد 15 مئی 2014ء کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہوگیا. ساتھیوں نے گیٹ پر اس کا استقبال کیا. یہ لوگ اسے جلوس کی شکل میں وزیر آباد لے آئے. وزیر آباد میں ڈبل شاہ کی آمد پر آتش بازی کا مظاہرہ ہوا. پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے فراڈیئے کو ہار پہنائے گئے. اس پر پھولوں کی منوں پتیاں برسائی گئیں،
اور اسے مسجدوں کے لاﺅڈ سپیکروں کے ذریعے مبارک باد پیش کی گئی. وہ ہر لحاظ سے کامیاب ثابت ہوا. وہ سکول ٹیچر تھا. وہ معاشرے کا تیسرے درجے کا شہری تھا. اس نے فراڈ شروع کیا اور 7 ارب روپے جس کے نیب کے پاس کلیم آئے مالک بن گیا، جس رقم کے کبھی کلیم نہیں آئے وہ رقم کسی شمار و قطار میں نہیں آئی۔
نیب اس سے صرف تین ارب روپے ریکور کر سکا اور باقی چار ارب روپے نہیں نکلوا سکا. اسے سزا ہوئی، اس نے قید کے دن بھی جیل کے ہسپتال اور بی کلاس میں سکون سے گزارے‘ اس نے جیل حکام کا خیال رکھا اور جیل حکام نے اس کا، اسے جیل میں تمام سہولتیں حاصل تھیں. وہ اہنی سزا کاٹ کر جیل سے باہر آ گیا اور اب وہ مکمل طور پر کلیئر تھا. اس نے اب کسی کو کچھ ادا نہیں کرنا تھا، اور نہ ہی پولیس اور نیب اسے تنگ کر سکتی تھی.
یہ چار ارب روپے اب اس کے تھے. یہ اس رقم کا بلا شرکت غیرے مالک تھا ایک سابق سکول ٹیچر کےلئے چارب ارب روپے کی رقم قارون کے خزانے سے کم نہیں تھی. وہ وزیرآباد سے لاہور شفٹ ہوا، اور دنیا بھر کی سہولیات کے ساتھ شاندار زندگی گزارنے لگا.
لیکن
اسے رہائی کے 16 ماہ بعد اکتوبر 2015ء میں لاہور میں ہارٹ اٹیک ہوا. یہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا اور
30 اکتوبر 2015ءکو انتقال کر گیا.
یہ شخص چار ارب روپے کا مالک ہونے کے باوجود دنیا سے چپ چاپ رخصت ہو گیا. ڈبل شاہ کی ساری بے نامی جائیداد‘ خفیہ اکاﺅنٹس‘ کیش رقم‘ فیکٹریاں اور پلازے دنیا میں رہ گئے، اور وہ خالی ہاتھ مگر ہزاروں لوگوں کی بددعائیں لئیے اگلے جہاں چلا گیا۔
دنیا میں اگر کسی شخص نے قرض لیا ہو اور قرض ادا کئیے بغیر مر جائے تو جب تک اس کے وارث اس کا قرض ادا نہ کردیں اس کی نجات نہیں ہے۔
سیّد سبط الحسن عرف ڈبل شاہ نے تو ہزاروں لوگوں جن میں بزرگ پنشنرز اور بیوائیں بھی شامل تھیں ان کو لوٹا تھا اور ان کی پونجی سے محروم کر دیا تھا۔ وہ ان کا دیندار تھا، قرضدار تھا اور جب تک وہ رقوم ان کے مالکان کو نہیں لوٹائی جاتیں وہ نجات نہیں پا سکتا ۔۔ ۔۔مال و زر تو سارا اسی دنیا میں رہ گیا لیکن وہ اپنی نجات کے راستے مسدود کر گیا ۔
اللّہ تعالی ہم سب کو دوسروں کے مال پر وقتی راحت اور پھر ہمیشہ کی ذلّت اور جہنّم کی آگ سے محفوظ فرمائے۔
Comments
Post a Comment