پاکستان کی سیاست کا مرد حر آصف زرداری

 


بی بی سی اردو کا مردحر آصف علی زرداری پر ایک کالم


 اپریل کو رات کی تاریکی میں پاکستانی سیاست میں حالیہ عرصے کی سب سے بڑی معجزاتی تبدیلی آئی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ پاناما سکینڈل کا شکار اور مقدمات کے نتیجے میں جیل اور جیل سے گھر کے راستوں میں پاﺅں زخمی کر بیٹھا شریف خاندان اقتدار کی راہداریوں میں پہنچ گیا۔


اب صورتِحال یہ ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان احتجاجی سیاست کا آغاز کر چکے ہیں اور میاں شہباز شریف وزیرِ اعظم بن کر مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

میدانِ سیاست میں معجزاتی تبدیلی کیسے آئی؟ کن شخصیات نے سیاسی کردار نبھایا؟ اگر ہم یہ کہیں کہ سب سے اہم کردار آصف علی زرداری کا رہا تو غلط نہ ہو گا۔

اس میں دو رائے نہیں کہ آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست نے سنہ 2008 کے انتخابات سے مذکورہ تبدیلی تک ملکی سیاسی نظام پر اپنے گہرے اثرات مُرتب کر رکھے ہیں اور حالیہ تبدیلی میں اِن کا کردار سب پر ’بھاری‘ ہے۔

آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست اور موجودہ سیاسی منظر نامے میں اِن کے اثرات کے بیان کے لیے ہمیں تھوڑا گذشتہ ادوار میں جانا ہو گا۔

آصف علی زرداری اور بے نظیر
بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی سنہ 1987 میں ہوئی۔ بے نظیر دو بار ملک کی وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں۔ پہلی مرتبہ سنہ 1988 کے عام انتخابات میں اور پھر اِن کی حکومت سنہ 1990 میں ختم ہوئی۔

دوسری بار سنہ 1993 کے انتخابات میں یہ مسندِ اقتدار پر فائز ہوئیں مگر حکومت ایک بار پھر اپنی مُدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996 میں اپنے اختتام کو پہنچی۔

اپنی دوسری حکومت کی مُدت پوری نہ ہونے کے بعد اِن کا زیادہ وقت جلاوطنی کی نذر ہوا۔ سنہ 2007 میں بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی۔ یہ وہ عرصہ تھا جب ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا تھا لیکن دو ہی ماہ بعد وہ 27 دسمبر کو قاتلانہ حملے میں جہانِ فانی سے رحلت کر گئیں۔

آصف علی زرداری پر الزامات و مقدمات کا آغاز اور قید و بند
بے نظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت ناکام کیوں ہوئی؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تاثر یہ بھی رہا کہ آصف علی زرداری کی معاملاتِ حکومت میں غیر ضروری موجودگی اور مُداخلت رہتی تھی۔

جیسا کہ سرکاری میٹنگز میں آصف علی زرداری کا موجود ہونا، یہ موجودگی ملٹری و سول بیوروکریسی کو کھٹکتی تھی۔ اسی عرصہ میں اِن کے خلاف ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا تاثر بھی اُبھرا تھا۔

بے نظیر بھٹو صاحبہ سے شادی سے قبل آصف علی زرداری پر شاید کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ اِن کی ذات پر الزامات اور مقدمات کا آغاز شادی کے بعد ہوا۔

10 اکتوبر 1990 میں آصف زرداری پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے اور فروری 1993 میں رہا ہوئے۔ ان پر مالی بدعنوانی، اغوا، اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے الزامات تھے۔

زرداری نومبر 1996 میں دوسری بار گرفتار ہوئے اور لگ بھگ آٹھ سال قید گزارنے کے بعد نومبر 2004 میں رہا ہوئے۔ اس دوران ان پر قتل، کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات تھے۔

 برس کی آزادی کے بعد پھر جیل
10 جون سنہ 2019 میں زرداری نیب کی حراست میں چلے گئے لیکن نوے کی دہائی سے لمحہ موجود تک کرپشن کے الزامات کی زَد میں رہنے والے آصف علی زرداری کا پانامہ اور پینڈورا سیکنڈل میں نام نہیں آیا تھا۔

جب سنہ 1996 میں آصف علی زرداری لگ بھگ آٹھ برس کے لیے جیل گئے تو اُس وقت اِن کی عمر تقریباً چالیس برس تھی لیکن سنہ 2004 میں رہائی کے بعد جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت سنہ 2019 میں جیل گئے تو یہ 66 برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔

10 جون سنہ 2019 میں جب مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہوئی تو نیب ٹیم نے انھیں ان کی رہائشگاہ سے تحویل میں لے لیا۔ اِن کی چھوٹی بیٹی آصفہ نے انھیں گلے لگایا اور آصف علی زرداری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے گاڑی میں بیٹھ گئے۔

ایک نئے زرداری کا ظہور اور سنہ 2008 کے انتخابات
سنہ 2004 میں رہائی کے بعد آصف زرداری ملک سے باہر چلے گئے اور بے نظیر کے قتل کے بعد واپس آئے اور سیاسی ذمہ داریاں نبھائیں۔ یہاں سے ایک نئے آصف علی زرداری کا ظہور ہوا۔

بے نظیر کے قتل کی وجہ سے ملک بھر میں بھونچال تھا۔ آصف علی زرداری نے ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگا کر آگے بڑھنے کا راستہ ہموار کیا تو کئی بحران دَم توڑنا شروع ہو گئے اور ملکی سیاست ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔

سنہ 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے اقتدار سنبھالا اور آصف علی زرداری صدرِ پاکستان بن گئے۔

اس عرصے میں زرداری نے پارلیمان کو مضبوط کیا اور ہر طرح کے سکینڈل سے عہدہ برا ہو کر سیاسی نظام کو معطل ہونے سے بچایا۔

آخرِ کار مئی سنہ 2013 میں زرداری انتخابات کی صورت میں اقتدار ایک سیاسی جماعت سے دوسری جماعت کو منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

آصف علی زرداری کے دَور حکومت کا اہم ترین کارنامہ 15 اپریل 2010 کو اٹھارویں ترمیم کا پارلیمان سے متفقہ طور پر منظور ہونا تھا مگر اِن کے دورِ حکومت کا اصل کارنامہ جمہوری عمل کا پانچ سال پورے کرنا تھا۔ اگرچہ وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہ کر سکے تھے مگر حکومت نے کئی دیدہ و نادیدہ چیلنجز کے باوجود پانچ سال پورے کیے۔

مئی سنہ 2011 میں آصف علی زرداری کی حکومت میں میمو گیٹ کی صورت میں ایک بڑے بحران نے جنم لیا تھا۔ اس بحران میں شدت میاں نواز شریف کی جانب سے اُس وقت پیدا کی گئی جب وہ سپریم کورٹ میں وکیلوں والا کالا کوٹ پہن کر پہنچ گئے۔ البتہ مارچ سنہ 2018 میں میاں نواز شریف نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور کہا کہ ’جب زرداری پر میمو گیٹ بنا تھا تو اُس وقت مجھے ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔‘

میمو گیٹ مئی سنہ 2011 میں آیا۔ ٹھیک دو سال بعد مئی 2013 میں انتخابات ہوئے اور پاکستان مسلم لیگ نون نے کامیابی سمیٹی۔

انتخابات کے فوراً بعد پاکستان تحریکِ انصاف نے دھاندلی کا الزام لگایا اور چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا مگر زرداری اِن انتخابات پر اپنے تحفظات کا اظہار کر کے آگے بڑھ گئے اور حکومت کے خلاف احتجاج کا عندیہ نہیں دیا بلکہ مفاہمت پر مبنی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے حالانکہ فرینڈلی اپوزیشن پالیسی اختیار کرنے پر اِن کی شخصیت پر پارٹی کے اندر سے تنقید بھی کی گئی۔

سنہ 2013 کے انتخابات کے بعد آصف زرداری کا سیاسی کردار
یہ 23 اگست سنہ 2014 کی بات ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اسلام آباد میں دھرنا دے دیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت اس بارے میں سخت پریشان تھی اور پی ٹی آئی سے دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کسی طور کامیاب نہیں ہو پا رہے تھے۔

یہ وہ دِن تھا جب تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان نے وزیرِاعظم سے ایک ماہ میں استعفے کا مطالبہ کیا اور اپنی شادی کی اطلاع دی۔

اُسی روز آصف علی زرداری جاتی اُمرا جا پہنچے، جہاں میاں نواز شریف نے اُن کا استقبال کیا اور گھبرائے ہوئے وزیرِ اعظم اور گھبرائی ہوئی حکومت کے چہروں پر آصف علی زرداری کی مسکراہٹ منتقل ہو گئی۔

میزبانوں کی جانب سے زداری کا شاندار استقبال کیا گیا۔ دونوں رہنماﺅں میں اس اَمر پر کہ ’جمہوریت کسی طور پر ڈی ریل نہیں ہونے دی جائے گی‘ اتفاق ہوا۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو نرمی اور محبت سے حکومت چلانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ’سیاسی بحران میں پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ ہے۔‘

اُسی روز آصف زرداری جماعتِ اسلامی کے مرکز منصورہ بھی پہنچے اور سراج الحق سے ملاقات کی۔ بعد ازاں یہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے اُن کی رہائشگاہ پر ملاقات کے لیے بھی گئے۔ آصف علی زرداری کی ان ملاقاتوں نے حکومت کے لیے آکسیجن کا کام کیا۔

آپ نے تین سال، ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے‘
یہ 16 جون سنہ 2015 کی بات ہے جب پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کی حلف برداری کی تقریب میں زرداری نے فوج کے خلاف بعض ایسی باتیں کیں جنھوں نے تہلکہ مچا دی۔

مثال کے طور پر انھوں نے کہا کہ ’ہماری کردار کشی شروع کی تو نہ جانے کتنے جرنیلوں کا نام آئے گا۔‘

آصف علی زرداری نے پرویز مشرف پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ’ہمیں تنگ مت کرو، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ آپ نے تین سال، ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔‘

آصف زرداری کے اس سخت خطاب سے ملکی سیاست میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ اگلے روز وزیرِ اعظم ہاﺅس میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی سربراہی میں مشاورتی اجلاس ہوا۔ یہ وہ دِن تھا جب وزیرِ اعظم کی ملاقات زرداری کے ساتھ طے تھی۔ اس اجلاس میں اِن کے فوج مخالف بیان کا جائزہ لیا گیا اور مشاورت کے بعد میاں نواز شرف نے آصف زرداری سے ملاقات منسوخ کر دی۔

’میں لوٹ آیا ہوں ،ہمارا جینا مرنا یہیں ہے‘

یہ 23 دسمبر سنہ 2016 کی بات ہے جب ’آپ نے تین سال، ہم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے‘ کے بیان کے بعد آصف زرداری اَٹھارہ ماہ کی جلا وطنی کے بعد وطن لوٹے۔

دبئی سے کراچی پہنچ کر انھوں نے کہا کہ ’میں لوٹ آیا ہوں، ہمارا جینا مرنا یہیں ہے۔ میں مایوسی نہیں اُمید کا پیغام لایا ہوں۔ یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ خدا کے فضل، مسلح افواج کی طاقت اور عوام کے اتحاد سے ہماری سرحدیں محفوظ ہیں۔‘

پارلیمانی سیاست کا حصہ بننے کا اعلان
پارلیمانی سیاست کا اعلان آصف علی زرداری کا وہ فیصلہ تھا،جس کے اثرات سابق وزیرِاعظم عمران خان کے خلاف کامیاب ہونے والی تحریک عدمِ اعتماد پر بھی بہت واضح ہیں۔

اس کے لیے ہمیں 27 دسمبر 2016 میں جانا ہو گا۔ بے نظیر کی برسی پر گڑھی خدا بخش میں لوگوں کی بڑی تعداد جمع تھی اور یہاں آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو سرپرائز دیا۔

انھوں نے نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ’میاں صاحب۔۔۔ میں اور بلاول آپ کو سبق سکھانے اسمبلی آ رہے ہیں۔‘

اس اعلان کا مختلف حلقوں میں مختلف انداز سے ردِعمل آیا اور پیپلز پارٹی کے اندر بعض رہنماؤں نے بھی زرداری کی پارلیمانی سیاست شروع کرنے کو ناپسند کیا۔

اس پہلو کی بنیادی وجہ شاید یہ تھی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت خصوصاً پنجاب کے اندر آصف علی زرداری سے زیادہ بلاول بھٹو زرداری کو متحرک اور سرگرم دیکھنا چاہتی تھی لیکن آصف علی زرداری کا پارلیمانی سیاست کا حصہ بننے کا اعلان اپنے دیرپا اثرات چھوڑے گا،اُس وقت کے پارٹی رہنماﺅں اور سیاسی تجزیہ کاروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

شہباز شریف کے وزیرِاعظم بننے کی کہانی کا آغاز کہاں سے ہوا؟
20 ستمبر 2020 کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد تشکیل پایا۔

یہ اتحاد اپنے اندر کئی طرح کے مسائل جنم لینے کے باوجود حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کرنے کا باعث بنا مگر اس اتحاد میں پیپلز پارٹی کا بیانیہ زیادہ قبولیت اختیار کرنے سے معذور رہا لیکن پی ڈی ایم میں زرداری کی سیاسی حکمتِ عملی پی ٹی آئی حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنی۔

وزیرِاعظم ہاﺅس میں پی ڈی ایم کی پہلی اینٹ
یہ 3 مارچ سنہ 2021 کی بات ہے جب سینیٹ کے انتخابات میں یوسف رضا گیلانی نے حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ شیخ کو شکست سے دوچار کر دیا اور حکومت کے دس ووٹ یوسف رضا گیلانی کی جھولی میں آ گرے۔

آصف علی زرداری کا سیاسی داﺅ کام کر گیا اور سنہ 2018 میں قائم ہونے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کو پہلا سیاسی دھچکا لگا۔

آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی کی سیاسی کمزوری کو بھانپ لیا مگر عمران خان نے اس سیاسی دھچکے سے کچھ نہیں سیکھا اور انھیں اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔ یوسف رضا گیلانی کی جیت پی ڈی ایم کی پارلیمانی سطح پر بڑی جیت تصور کی جاتی ہے۔

اسمبلیوں سے استعفوں کی تجویز پیپلزپارٹی مان لیتی تو؟
اپریل سنہ 2021 میں پی ڈی ایم میں ہی پھوٹ پڑ گئی۔ مولانا فضل الرحمان اور نون لیگ کی قیادت کا اصرار تھا کہ اپوزیشن کے اس اتحاد کو اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دینا چاہیے مگر پیپلزپارٹی استعفوں کے خلاف تھی۔

اگر اُس وقت پیپلزپارٹی استعفے دینے پر رضامند ہو جاتی تو کیا آج پاکستان تحریکِ انصاف اسمبلی سے استعفے دے رہی ہوتی؟ یقینی طور پر منظر نامہ آج سے یکسر مختلف ہوتا۔

اُس وقت بھی پیپلزپارٹی رہنماﺅں کی آرا یہی تھی کہ اِن کی پارٹی کے فیصلوں کی وجہ سے عمران خان کی حکومت دباﺅ میں آئی لہٰذا استعفے نہیں دینے چاہیے۔

قبل ازیں 16 مارچ 2021 کو پی ڈی ایم کا اجلاس ہوا جو چھ گھنٹے تک جاری رہا لیکن جب پریس کانفرنس کے لیے مولانا فضل الرحمان آئے تو محض یہ کہہ کر کہ ’لانگ مارچ ملتوی‘ چلتے بنے۔

معاملہ استعفوں کا تھا۔ درحقیقت زرداری نے لانگ مارچ اور اسمبلی سے استعفوں کی مخالفت کی تھی۔ پی ڈی ایم کی باقی جماعتوں اور پیپلز پارٹی میں اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دیگر جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنوں پر زور جبکہ پیپلز پارٹی پارلیمان کے اندر سیاست کے ذریعے تبدیلی پر زور دیتی تھی۔

یہ پارلیمان کے اندر رہ کر جدوجہد پیپلز پارٹی کی پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ عمران خان وزیرِ اعظم کی کرسی چھوڑ کر سڑکوں کی سیاست کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور ایسی ہی سیاست سے پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو روکا تھا۔

عمران خان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد اور زرداری
8 مارچ سنہ 2022 کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد جمع کروائی گئی۔ اُس روز آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ’172 سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔‘

اُس دِن پریس کانفرنس میں شہباز شریف کے چہرے پر خوشی اور آنکھوں کی چمک نے تحریک عدمِ اعتماد کی کامیابی پر مہر لگا دی تھی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی زرداری کے طرزِ سیاست کی مرہون منت قرار دی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا، آزاد اُمیدواروں کو ساتھ ملانا، ایم کیوایم اور بلوچستان کی باپ پارٹی کو ہمنوا بنانا، یہ سب آصف زرداری کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔

پنجاب میں ق لیگ سے زرداری کو بڑی اُمیدیں تھیں اور ق لیگ بھی نون لیگ پر نہیں بلکہ پیپلز پارٹی پر اعتماد کر رہی تھی۔ میاں شہباز شریف نے چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی سے ملاقات کی اور جاتی اُمرا کی دعوت دی مگر ق لیگ کا ووٹ اِن کے پلڑے میں نہ گر سکا۔

اگر سندھ اور بلوچستان کی پارٹیاں اور آزاد اُمیدوار زرداری کی کوششوں سے ساتھ نہ کھڑے ہوتے تو یقینی طورپر پنجاب سے تعلق رکھنے والے شہباز شریف وزیرِ اعظم ہاﺅس سے باہر ہی بیٹھے ہوتے۔

زرداری نے کب کب نون لیگ کو معاونت بہم پہنچائی؟
ہمیں سنہ 2008 کے عام انتخابات سے ذرا پہلے کے دور میں جانا ہو گا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت بالخصوص آصف زرداری اور اِن کی فیملی صدمے کی کیفیت میں تھے کہ اسی دوران انتخابات آ گئے۔

مسلم لیگ نون نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ‘(اے پی ڈی ایم) جس میں پاکستان تحریکِ انصاف بھی شامل تھی، نے یہ کہہ کر انتخابات کا بائیکاٹ کیا کہ ’ایسے انتخابات میں کوئی دلچسپی نہیں جس میں تمام اختیارات صدر کے پاس ہوں۔‘

ایسے عالم میں انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ پر سر پر منڈلانے لگا اور صدمے کی کیفیت میں گھری پیپلز پارٹی اور آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو انتخابات کے لیے قائل کیا۔

اس الیکشن سے نون لیگ کے لیے پنجاب میں اقتدر کا دروازہ کھلا اور یہ تسلسل سنہ 2013 میں بھی جاری رہا اور نون لیگ پنجاب کے ساتھ مرکز میں بھی حکومت سازی میں کامیاب ہو گئی۔ اے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اُس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ آگے جا کر زرداری صدر بن کر صدر کے تمام اختیارات پارلیمان کو سونپ دیں گے۔

علاوہ ازیں زرداری سنہ 2014 میں اُس وقت میاں نوازشریف کی مدد کو پہنچے، جب اسلام آباد میں پی ٹی آئی دھرنا دے کر اُن کے استعفے کا مطالبہ کر رہی تھی۔

اسی طرح حالیہ عرصے میں پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد جب دیگر جماعتوں سمیت نون لیگ نے بھی استعفوں کی سیاست پر زور دیا تو آصف زرداری نے اُنھیں پارلیمان کے اندر رہ کر جدوجہد پر اُراضی کیا۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ پارلیمانی جدوجہد کے نتیجے میں سابق وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد لائی گئی اور اس تحریک نے بالآخر کامیاب ہو کر میاں شہباز شریف کو اقتدار کی راہداریوں میں پہنچا دیا۔

زرداری کی آنے والے وقت میں حکمت عملی کیا ہو سکتی ہے؟
زرداری کی سب سے بڑی خواہش اور تیاری بلاول بھٹو زرداری کو وزیرِ اعظم بنوانا ہے۔ یہ آصف علی زرداری کا آخری سیاسی داﺅ ہو گا۔

جب بلاول بھٹو زرداری وزیرِ اعظم بن جائیں گے تو آصف علی زرداری کیا کریں گے؟ اُس وقت زرداری اپنے بچوں کے بچوں کی صحن میں گونجتی کلکاریوں سے اپنی مخصوص مسکراہٹ میں اضافہ کریں گے۔ یہ کلکاریاں اِن کو دَرحقیقت ننھے بلاول، ننھی آصفہ اور بختاور کی محسوس ہوں گی کیونکہ زرداری جیل میں ہونے کے باعث اپنے بچوں کی ننھی شرارتوں اور قہقہوں سے محروم رہے۔

بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے ایک بار کہا تھا کہ آصف علی زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کرنا ضروری ہے جبکہ آصف علی زرداری نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’سیاسی معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔‘

نائن الیون کے بعد کی پاکستانی سیاست میں جس سیاسی حکمتِ عملی کا مظاہرہ آصف علی زرداری کی جانب سے دیکھنے میں آیا، کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیاست کے ایسے کھلاڑی ہیں ،جنھیں مات دینا آسان نہیں۔

Comments

Popular Posts