پاکستانیوں کے خطرناک معاشرتی رویے
پاکستانیوں کے خطرناک رویے۔۔۔۔۔
اسلام آباد ہو یا کراچی
یاد رکھیں اور احتیاط کریں کہ مُلک آزاد ہو رہا ھے!
کل رات میں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ خود گاڑی چلا رہا تھا۰۰۰۰ ایک جگہ اشارہ بند تھا، میں رُک گیا۰۰ لیکن پیچھے ایک گاڑی جسے ایک 18/19 سالہ نوجوان چلا رہا تھا، انتہائی بے صبری سے ہارن پہ ہارن بجائے جا رہا تھا۰۰۰ میں نے بہت کوشش کرکے سُرخ اشارے کے باوجود اُسے راستہ دیا، وہ میرے عُمر میں بڑا ہونے کے باوجوُد خوفناک نظروں سے دیکھتا ہوا فاتحانہ انداز میں قریب سے گُزر گیا۰۰۰۰۰ایسے رویوں میں اب غیر معمُولی اضافہ ہونے لگ گیا ھے۰۰۰۰۰۰
میں نے اِس واقعہ کے بعد فیملی کو سمجھایا کہ ایسے میں کبھی کسی سے بحث نہ کرنا، گُزر نے دینا ، کوئی بد تمیزی بھی کرے تو خاموش رہنا۰۰۰۰۰ مُلک آزاد ہو رہا ھے!
آج زیرِ نظر تحریر سامنے سے گُزری ، آپ بھی پڑھئے 👇🏿
"ڈر لگتا ھے"
میری عمر 67 سال ھے اور سر کے بال سفید نظر آتے ہیں ۔ شکل و صورت سے بھی سینیر سٹیزن لگتا ہوں ۔ پہلے وقتوں میں بزرگ نظر آنے کا فاٸدہ ہوتا تھا مگر بزرگی اب معاشرے میں کمزور ہونے کی نشانی ھے ۔
کل ڈیفینس کریک کلب میں ایک کام تھا ۔ میں خود ہی گاڑی چلا رہا تھا ۔ شام کا وقت تھا ۔ خیابانِ اتحاد پر آیا تو صاف نظر آرہا تھا کہ اکثر لوگ کسی سگنل کا خیال نہیں کررہے ۔ جہاں موقعہ ملا تیزی سے نکل گٸے ۔ خیابان بحریہ کراسنگ پر سگنل توڑ کر میرے بیٹے کی عمر کا ایک لڑکا ویگو گاڑی میں میری جیپ کے سامنے آگیا ۔ میں نے پورا زور لگا کر بریک لگائی اور اسے اشارہ کیا کہ آپکا سگنل بند ہے ۔ برخوردار بیچ سڑک گاڑی کھڑی کرکے اترا ۔ کوئی لوھے کی چیز ہاتھ میں پکڑی اور غصے سے میری طرف آیا ۔ پتہ نہیں کیا گالی دی جو شیشے بند ہونے کی وجہ سے میں سن نہ سکا ۔
گاڑی کے شیشے پر ہاتھ مارا تو میں نے تھوڑا سا شیشہ کھول کر کہا کہ بیٹا سگنل دیکھئے آپ غلط آرھے ہیں ۔ کہنے لگا میں جلدی میں ہوں ۔ بکواس بند کرو ورنہ ونڈ اسکرین توڑ دونگا ۔ میں نے دونوں ہاتھ معافی مانگنے کی طرح جوڑے اور کہا کہ آئندہ سگنل کھلا بھی ہو تو خیال کرونگا ۔ آج معاف کردو ۔
وہ فاتحانہ انداز سے ہنسا اور کہنے لگا بڈھے یو آر ویری سمارٹ مین ۔ آج ہاتھ جوڑ کر مجھ سے بچ گئے ہو ۔ اب تجھ سے کیا لڑوں ۔ ہر طرف ہارن بچ رھے تھے اور میں اسی طرح ہاتھ جوڑے اسے دیکھ رہا تھا ۔ پتہ نہیں کس ماں باپ نے اسے تکبر ۔ بدتمیزی اور بدزبانی کی مٹی سے گوند گوند کر تربیت دی ہوگی ۔ گاڑی کے ٹائر پر ٹھڈا مار کر وہ مجھے زیر کرکے چلا گیا ۔
میں نے سگنل کراس کرکے چند سیکنڈز کیلیے سائیڈ میں گاڑی روکی ۔ دم لیا ۔ خود کو خود ہی شاباش دی کہ میں نے سب خوب برداشت کیا ۔ اللہ تعالیٰ سے اس لڑکے کیلئے خصوصی دعا مانگی کہ نجانے وہ اس تکبر اور بدمعاشی کا بار لئے کتنے دن اور جئے گا ۔ کیا پتہ اگلے سگنل پر اسکو اس سے بھی کسی بڑے جنونی بیٹے سے پالا پڑ جائے ۔ اپنے لئے بھی دعا کی کہ پرودگار کیسا بھی طوفان آ جائے مجھے غصے کی لعنت سے بچائے رکھنا ۔
جب بھی گھر سے باہر نکلتا ہوں بہت ڈر لگتا ھے ۔ کیا پتہ کب کس وقت کون گلے پڑ جاٸے کہ شہر کا شہر مرنے مارنے کو نکلا ہوتا ھے اور اس بے مہار ریوڑ کو ورغلانے میں ہمارے تمام قائدین اپنے جلسوں میں اپنی تقریروں میں روز نیا ایندھن ڈال کر سوتے ہیں ۔
اب بہت ڈر لگتا ھے
لڑنے والے ناسمجھ افراد سے کم
لڑانے والے نام نہاد قائدین سے زیادہ
کیونکہ یہی وہ رہبر ہیں جو اس قوم کی تباہی کا باعث بن رھے ہیں اور ہم بنا سوچے سمجھے اندھا دھند انکی تقلید میں انہی کے مفاد کیلئے کام آ رھے ہیں ۔
منقول
Comments
Post a Comment