دوسروں کو کچھ دینا ہی زندگی ہے
کالج کے پہلے دن ہمارے پروفیسر نے اپنا تعارف کرایا اور ہمیں چیلنج دیا کہ ہم یہاں کسی ایسے شخص سے جان پہچان بنائیں جسے ہم پہلے سے نہیں جانتے تھے۔
میں اپنی باری پر اِدھر اُدھر دیکھنے کے لیے کھڑا ہوا تو اچانک محسوس ہوا کہ کسی نرم ہاتھ نے میرے کندھے کو چھوا ہے ۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو, جھریوں زدہ چہرے والی درمیانے قد کی ایک بوڑھی عورت مجھے دیکھ رہی تھی ۔
اس کے دمکتے ہوئے چہرے پر ایک ایسی شاندار اور خوبصورت مسکراہٹ تھی جس سے اسکا پورا وجود روشن تھا۔
اس نے کہا، "ہیلو ہینڈسم۔ میرا نام" روز" ہے۔ میری عمر ستاسی سال ہے۔ کیا میں آپ کو جپھی ڈال سکتی ہوں؟"
میں ہنسا اور پرجوش انداز میں جواب دیا، "یقیناً آپ مجھے گلے مل سکتی ہیں!" اور پھر اس نے آگے بڑھ کر مجھے ایک زبردست جادو کی جپھی ڈالی کہ جیسے لیموں نچوڑا جا رہا ہو۔ میں ایک ستاسی سالہ بوڑھی خاتون کو کمرہ جماعت میں دیکھ کر ابھی تک حیران تھا، وہ میری حیرانی کو بھانپتے ہوئے
اچانک کسی نوعمر لڑکی کی طرح شرماتے ہوئے کہنے لگی ، "میں یہاں ایک امیر شوہر تلاش کرنے، اس سے شادی کرکے دو بچے پیدا کرنے آئی ہوں..."
’’پھر خود ہی کھلکھلا کر ہنس پڑی اور کہنے لگی، اسے سنجیدہ مت سمجھ لینا۔‘‘۔ میں سچ مچ متجسس تھا کہ اسے اپنی عمر کے اس حصے میں کالج آنے کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے کس چیز نے ترغیب دی ہو گی۔
"میں نے ہمیشہ کالج کی تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا اور اب میں وہی حاصل کر رہی ہوں!" اس نے مجھے بتایا تھا.
کلاس کے بعد ہم طلباء یونین کی عمارت میں چلے گئے اور چاکلیٹ ملک شیک پینے لگے۔ اس کے بعد ہم اچھے دوست بن گئے۔ اگلے تین مہینوں تک ہر روز ہم ایک ساتھ کمرہ جماعت سے نکلتے اور بلا توقف باتیں کرتے رہتے ۔ جب کبھی وہ اپنی گزشتہ زندگی کی حکمت اور تجربہ مجھ سے شیئر کرتی تو ، میں ہمیشہ اس "ٹائم مشین" کو سن کر مسحور ہو جاتا تھا.
سال بھر کے دوران، "روز" کیمپس کا ایک آئیکون بن گئی، اور وہ جہاں بھی جاتی تھی آسانی سے نئے دوست بنا لیتی تھی۔ وہ ہمیشہ خوبصورت اور نفاست سے تراشیدہ سلے ہوئے کپڑے پہننا پسند کرتی تھی، وہ دوسرے طالب علموں کی طرف سے دی جانے والی توجہ سے خوش ہوتی تھی، اس طرح اسے حیات نو ملتی رہتی تھی ۔
سمسٹر کے اختتام پر ہم نے "روز" کو اپنی فٹ بال ٹیم کی ضیافت میں گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ وہ اس دن بڑے باوقار طریقے سے چلتے ہوئے اسٹیج کی جانب گئی، پھر جس خوبصورتی سے اس نے پوڈیم پر کھڑے ہوکر تقریر کی میں وہ دن، وہ منظر اور وہ الفاظ کبھی بھی نہیں بھول سکتا.
جیسے ہی وہ اپنی تیار کردہ تقریر کرنے لگی، تو وہ چند کاغذات جن پر تقریر کے نوٹس لکھے تھے وہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑے۔ مایوسی اور قدرے شرمندہ ہو کر اس نے مائیکروفون کی طرف جھک کر کہا، ". معاف کیجئے گا میری لکھی ہوئی تقریر والے اوراق نیچے گر کر آپس میں خلط ملط ہوگئے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ، تقریر کا جو اختتامی پیراگراف ہو وہ میں پہلے پڑھ دوں، اس لیے مجھے افسوس ہے کہ میں اب اس کی بجائے کچھ فی البدیہہ کہنا چاہوں گی ۔
ہمارے خوب ہنسنے کے بعد، اس نے اپنا گلا صاف کیا اور بولنا شروع کیا ، "ہم اس لیے کھیلنا نہیں چھوڑتے کیونکہ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، بلکہ ہم اس لیے بوڑھے ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم کھیلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ جوان رہنے، خوش رہنے اور کامیابی حاصل کرنے کے صرف چار راز ہیں۔ آپ کو ہر روز ہنسنا اور بے کیف زندگی کے اندر سے مزاح تلاش کرنا ہے۔
آپ کو خواب دیکھنا ہوگا، پھر اس کی تکمیل میں جت جانا ہوگا ۔ جب آپ اپنے خواب دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں، یا انہیں تعبیر دینا بھول جاتے ہیں تو آپ مر جاتے ہیں۔
ہمارے پاس، ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ گھومتے پھرتے ہیں جو مر چکے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم نہیں! بڑے ہونے اور بزرگ ہونے میں بہت فرق ہے۔
اگر آپ انیس سال کے ہیں اور پورا ایک سال بستر پر پڑے رہیں اور کوئی نتیجہ خیز کام نہ کریں تو آپ بیس سال کے ہو جائیں گے۔
میں ستاسی سال کی ہوچکی ہوں اور ایک سال تک بستر پر لیٹی پڑی رہوں اور کبھی کچھ نہ کروں تو میں اٹھاسی کی ہو جاؤں گی ۔
عمر کے لحاظ سے کوئی بھی بڑا ہو سکتا ہے۔ ہندسوں کے بدلنے میں کسی کی بھی کوئی قابلیت یا مہارت کی ضرورت نہیں اور نہ ہی دخل ہے۔ اصل زندگی کا حق تو ہمیشہ تبدیلی کے مواقع کی تلاش اور خوابوں کی تعبیر کی کھوج کرتے ہوئے بڑا ہونا ہے۔
ایسی تبدیلی جس میں کوئی پچھتاوا نہ ہو ۔
بزرگوں یا بوڑھوں کو عام طور پر اپنے کیے گئے کاموں پر کبھی بھی پچھتاوا نہیں ہوتا، بلکہ پچھتاوا ہوتا ہے ان چیزوں کے لیے جو ہم نے گزشتہ زندگی میں نہیں کیں۔ موت سے صرف وہی لوگ ڈرتے ہیں۔
جو حیات کا ہر لمحہ افسوس اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ بسر کرتے ہیں ۔
ہمت اور ولولے کو بڑھاتی ایک خوبصورت نظم "دی روز" کو گنگناتے ہوئے اس نے اپنی تقریر کا اختتام کیا.
اس نے ہم میں سے ہر ایک کو اس نظم کا مطالعہ کرنے اور اپنی روزمرہ کی زندگیوں میں زندہ رہنے کے لیے چیلنج دیتے رہنے کا کہا۔
سال کے آخر میں روز نے کالج کی وہ ڈگری احسن طریقے سے مکمل کر لی، جسے چند سال قبل اس نے شروع کیا تھا ۔ گریجویشن کے ایک ہفتے بعد روز کی نیند کی حالت میں ہی وفات ہوگئی۔
کالج کے دو ہزار سے زائد طلباء نے اس شاندار خاتون کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کے جنازے میں شرکت کی، جس نے بطورِ نمونہ عملی طور پر ہمیں سکھایا کہ،
آپ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں اس کے کرنے اور ہونے میں کبھی بھی دیر نہ کریں!
یہ سنہرے الفاظ روز کی محبت بھری یاد میں ہمیشہ مبتلا رکھتے ہیں۔
یاد رکھیں بوڑھا ہونا ہر کسی کے نصاب حیات کا لازمی حصہ ہے، مگر بڑا ہونا اختیاری ہے
REMEMBER, GROWING OLDER IS MANDATORY. GROWING UP IS
OPTIONAL.
ہم جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسی سے ہم زندگی گزارتے ہیں، لیکن ہم جو کچھ دوسروں کو دیتے ہیں اصل زندگی اسی سے بنتی ہے ۔
(انگریزی ادب سے ماخوذ )
Comments
Post a Comment