وجد و رقص قرآان و سنت کی روشنی میں

 


وجد و رقص قرآن واحادیث مبارکہ کی روشنی میں:::
وجد و تواجد

وجد :وجد ایک ایسا روحانی جزبہ ہے۔ جو اللہ کی طرف سے باطن انسانی پر وارد ہو جس کے نتیجہ میں خوشی یا غم کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس جزبہ کے وارد ہونے سے باطن کی ہیت بدل جاتی ہے اور اس کے اندر رجوع اِلَی الله کا شوق پیدا ہوتا ہے گویا وجد ایک قسم کی راحت ہے یہ اس شخص کو حاصل ہوتی ہے جس کی صفات نفس مغلوب ہوں اور اس کی نظریں اللہ تعالٰی کی طرف لگی ہوں۔

وجد بعض اہل ایمان میں سے ایسے لوگوں کو ہوتا ہے کہ جب وہ قرآن پاک کی تلاوت یا نعت سنتے ہیں یا اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو خشیت الٰہی یا محبت الٰہی یا محبت رسول ﷺ کی وجہ سےیا اولیاء اللہ کی منقبت یا تعریف و توصیف سننے کی وجہ سے ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ خصوصاً جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہےتو ذاکرین پہ انوار و تجلیات کا ورود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم مختلف حرکات کرنے لگتے ہیں ۔ کبھی وہ رونے لگتے ہیں کبھی بھاگنے لگتے ہیں کبھی بیہوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ادھر کبھی اُدھر کبھی آگے کبھی پیچھے جھکتے اور گرتے ہیں اور کبھی ان کے جسم تڑپنے لگتے ۔ یہ تمام حرکات غیر اختیاری ہوتی ہیں اس وقت انسان کا اپنے جسم پہ کوئی قابو نہیں ہوتا ۔اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے انسان کو جب چھینک یا کھانسی وغیرہ آتی ہے تو وہ انہیں قابو نہیں کر پاتا کیونکہ یہ غیر اختیاری افعال ہیں ۔ ایسے ہی وجد کی کیفیت بھی غیر اختیاری ہوتی ہے ۔

کشف المحجوب میں حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ وجد کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ یہ وہ غم ہے جو محبت میں ملتا ہے اس لیے بیان سے باہر ہے نیز وجد طالب اور مطلوب کے درمیان ایک راز ہے جسے بیان کرنا مطلوب کی غیبت کے برابر ہے وجد عارفوں کی صفت ہے۔‘‘

(کشف المحجوب)۔

تواجد :حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ تواجد وجد لانے میں ایک تکلف ہوتا ہے ۔ اور یہ انعامات و شواہد حق کو دل کے حضور پیش کرنا ہے اور محبوب کے وصال کا خیال اور انسانی آرزووں کا جوش میں آنا ہے۔

حضورﷺ نے فرمایا:’’جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرتا ہے وہ اسی سے ہوتا ہے‘‘حضورﷺ نے فرمایا:’’ جب تم قرآن پڑھو تو روو، اگر رونا نہ آے تو تکلف سے روو‘‘اور یہ حدیث تواجد کے مباح ہونے پر گواہ ہے۔ ‘‘(کشف المحجوب)

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ذکر اور فکر سے وجد کو حاصل کرنا تواجد کہلاتا ہے۔ ‘‘

(عوارف المعارف)

علامہ عبدالغنی ناطبی قدس سرہ فرماتےہیں:’’تواجد یہ ہے کہ ایک شخص کو حقیقتہ وجد حاصل نہ ہو لیکن وہ تکلف سے وجد کو اختیار کرتا ہے اور اسے ظاہر کرتا ہے ، اس میں شک نہیں کہ تواجد میں حقیقی وجد والوں سے مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ نہ صرف جائز ہے بلکہ شرعاً مطلوب ہے۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے‘‘۔

(الحدیث النسدیہ ج۲ ص٥۲٥)

وجد کی اقسام :وجد کی ویسے تو بہت سی اقسام ہیں جیسے رونا، رقص کرنا، بھاگنا، تڑپنا (جس کو دیکھ کر بعض لوگ کرنٹ سے تشبیہ دیتے ہیں) کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی وجد میں ہوتا ہے جبکہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ بلکل نارمل حالت میں ہے۔اور کئی بار تو آدمی وجد کی حالت میں ایسی حرکتیں کرتا ہے دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی ڈرامہ کر رہا ہے لیکن وہ ایسا جان بوجھ کر ہر گز نہیں کرتا بلکہ غلبہ انوار خداوندی اور غلبہ خشیتہ خداوندی کی وجہ سے یہ حرکات ہوتی ہیں۔کسی بزرگ نے وجد کے بارے میں فرمایا جس کا مفہوم عرض کرتا ہوں کہ جب وجد کا اثر زبان پر ہوتا ہے تو بندا روتا ہے چیختا ہے اور منہ سے مختلف الفاظ ادا کرتا ہے اور جب وجد کا اثر ہاتھوں پر ہوتا ہے تو وہ کپڑے پھاڑتا ہے منہ پر تماچے لگاتا ہے کبھی سینے پر مارتا ہے اور جب وجد کا اثر پاوں پر ہوتا ہے تو رقص کرتا ہے (کبھی تو بھاگتا بھی ہے)۔

وجد کی چند اقسام یہاں بیان کی جاتی ہیں:۱) کل بدن کی حرکت اور اضطراب۲) بعض بدن کی حرکت مثلاً لطائف کی حرکت۳) رقص کرنا٤) منہ سے کچھ الفاظ کا جاری ہو جانا مثلاً ھو، ھو، ھا، ھا، آہ، اف، اللہ، اللہ وغیرہ ﴿ اور یا رسول اللہ ﷺ بھی منہ سے جاری ہونا واللہ میں نے خود ایسا دیکھا ہے ﴾۵) بکا و رونا بلا صوت بہنا٦) کپڑے پھاڑنا دوڑنا اور چیخنا وغیرہ۷) اعضاء کا ٹوٹ جانا موت کا خطرہ بلکہ واقع ہو جانا جیسا کہ حضرت داود علیہ السلام کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سینکڑوں کی تعداد وجد کی وجہ سے فوت ہو جاتے تھے۔ اورحضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجالس میں بھی ۲ سے لے کر ٧۰ جنازے تک اٹھتے تھے۔۸) نعرہ لگانا اور کبھی نارہ لگا کر بےہوش ہو جانا۹) نماز میں وجد بے اختیاری ، بےہوش ہونا وغیرہ بعض اوقات خارج نماز وجد طاری ہونا۔

وجد پر اعتراضات :وجد کی ویسے تو اوپر مختلف اقسام بیان کی گئی ہیں لیکن سب سے زیارہ منکرین صوفیاء کے رقص پہ اعتراضات کرتے ہیں اور اسی سلسلہ میں کچھ فقہاء کی عبارات پیش کرتے ہیں جن میں رقص کو ناجائز کہا گیا ہے ۔ لیکن یہاں یہ وضاحت کرنی ضروری ہے کہ فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو نہیں بلکہ ایسے رقص کو ناجائز کہا ہے جو کسی دنیاوی غرض کے لیے ہو یا پھر دکھلاوے کے لیے ہو یا پھر ایسا رقص ہو جس میں زنانہ قسم کی حرکات ہوں یا پھر کسی غیر مرد یا عورت کے ساتھ کیا جائے یا پھر ایسا رقص ہو جو گانے بجانے کے ساتھ کیا جائے جیسا کہ فلموں میں آج کل ہوتا ہے یا پھر ایسا رقص ہو جو دباروں پہ ملنگ (اپنے آپ سے تنگ) کرتے ہیں جس میں گھنگھرو وغیرہ ڈال کے نشہ وغیرہ کر کے اور ڈھولوں پے کرتے ہیں اور ساتھ کچھ عورتیں بھی کھلے بالوں کے ساتھ ناچ رہی ہوتی ہیں یاد رکھیے گا یہ وجد نہیں ہوتا ۔ اور اس قسم کے رقص کو ہی علماء نے ناجائز کہا ہے ۔

یہاں واضح کر دوں کہ اس قسم کے رقص کو تو ہم بھی ناجائز کہتے ہیں اور ہمارے علماء کے اس پر فتوے موجود ہیں انشاءاللہ عزوجل آگے وہ بھی پیش کیے جائیں گے ۔ لیکن بعض منکرین ایسے رقص کو صوفیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں جبکہ یہ بلکل غلط ہے نہ تو صوفیاء اسطرح کا رقص کرتے ہیں اور نہ ہی جائز سمجھتے ہیں بلکہ صوفیاء جو رقص کرتے ہیں وہ غلبہ عشق کی وجہ سے ہوتا ہے جو بے اختیار ہوتا ہے نہ کہ دکھلاوے کہ لیے اور اس قسم کے وجد و رقص کو فقہاء نے جائز کہا ہے ۔

میں نے کچھ دن پہلے ایک آرٹیکل دیکھا جو غیر مقلدین نے لکھا تھا جس میں انتہائی دھوکہ دہی سے کام لیا گیا اس میں حنفی فقہاء اور علماء کی کتابوں سے چند عبارات جو کہ جعلی صوفیاء (جن کو ملنگ بھی کہتے ہیں جو نشہ وغیرہ کرتے ہیں) کے بارے میں اور دنیاوی رقص جس میں سیٹیاں مارنا تالیاں بجانا وغیرہ جیسے افعال کیے جاتے ہیں کو ناجائز کہا گیا تھا ان کو صوفیاء پہ زبردستی چسپایا گیا جبکہ انہی فقہاء اور علماء نے صوفیاء کے وجد کو دلائل سے ثابت کیا ہے ۔ اور ظالم یہ نہ جانتے تھے کہ جس چیز کے ناجائز ہونے پہ وہ دلائل پیش کر رہے ہیں وہ صوفیاء میں نہیں بلکہ خود ان میں موجود ہیں جن کہ آگے ثبوت بھی دیے جائیں گے انشاءاللہ عزوجل ۔

وجد قرآن حکیم کی روشنی میں

سورة الزمر٣٩:٢٣

ترجمہ:اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ دکھائے اس سے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں.

تفسیر :١﴾ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر مظہری میں فرماتے ہیں یعنی اللہ کی رحمت اور عموم مغفرت کا جب وہ ذکر کرتے ہیں تو اس ذکر کی وجہ سے ان کے دلوں میں سکون اور اطمینان پیدا ہو جاتا ہے ذکر اللہ کے ساتھ رحمت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اصل تو رحمت ہی ہے اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے اِلٰی ذکر اللہ میں بمعنی لام ہے یعنی اللہ تعالٰی کے ذکر کی وجہ سے لیکن ذکر کے اندر چونکہ سکون و اطمینان کا مفہوم داخل ہے اس لیے بجائے لام کے اِلٰی کہا گیا ۔ مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں آیاتِ وعید کا ذکر آتا ہے۔ تو مومنوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جلد بدن سکڑ جاتی ہے اس میں انقباض پیدا ہو جاتا ہے اور جب آیات کا ذکر آتا ہے تو کھالوں کا انقباض جاتا رہتا ہے ۔ کھا لیں نرم ہو جاتی ہیں اور دلوں میں سکون پیدا ہو جاتا ہے۔ مزید قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اسی آیت کی تفسیر میں تفصیلاً وجد و حال پہ بحث کر کے اس کو ثابت کیا ہے ۔ ضرورت پڑنے پر پوری عبارت پیش کی جا سکتی ہے اور سکین پیج بھی لگایا جا سکتا ہے ۔(تفسیر مظہری سورة الزمر آیت ۲۳)

٢﴾ اسی طرح مفسر جلیل القدر فقیہ اعظم علامہ ابو البرکات عبداللہ نفسی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر مدارک میں سورۃ زمر کی آیت ٢٣ کی تفسیر میں بدن کا لرزنا وجد اور حال کے اثبات اور شرافت کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :

قرآن کریم کی آیت کی تلاوت سن کر ان لوگوں کی کھال حرکت میں آئی ہے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں کہ کھال کا اکڑ جانا اور پھر لرزنا نیز معنی یہ ہوئے کہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والے جب قرآن سنتے ہیں تو اس کے سننے سے ان کی کھال لرزنے لگتی ہے اور اس میں مضطراب اور بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں الفاظ ہیں کہ: ’’ جب مؤمن کی کھال اللہ تعالٰی کے خوف سے حرکت میں آتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ‘‘(تفسیرمدارک ج ٤ ص ٣٦ سورة الزمر آیت ۲۳)

تفسیر الجلالین میں تقشعر کا معنٰی ترتعد ﴿ کانپنا / لرزنا ﴾ تحریر کیا ہے ۔تفسیر مدارک میں تقشعر کا معنٰی تتحرک اور تضطرب تحریر کیا ہے ۔

سورة الأعراف ٧:١٥٥ترجمہ:اور موسٰی نے اپنی قوم سے ستر (۷۰) مرد ہمارے وعدہ کے لئے چُنے پھر جب انہیں زلزلہ نے لیا موسٰی نے عرض کی اے رب میرے تو چاہتا تو پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا کیا تو ہمیں اس کام پر ہلاک فرمائے گا جو ہمارے بے عقلوں نے کیا وہ نہیں مگر تیرا آزمانا تو اس سے بہکائے جسے چاہے اور راہ دکھائے جسے چاہے تو ہمارا مولٰی ہے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر مہر کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے.

تفسیر:اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ سید محمود آلوسی بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتےہیں:حضرت موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے اشراف سے ستر(۷۰) ایسے افراد کا انتخاب کیا جو صاحبان استعداد اور سلوک تھے۔ جب ان پر تجلیات کا ظہور ہوا تو ان کے جلد اور بدن حرکت کرنے لگے اور ان کو زلزلے نے آ لیا۔ یعنی وہ کانپنے لگے اور کانپنا جو بدن پر تجلی صفاتیہ اور انوار و خوارق کے ظہور کے سبب سے لگتا ہے جو بدن پر بال کھڑے ہونے اور بدن کی حرکت سے عبارت ہے ، ایسی حالت اکثر سالکین پر ظاہر ہوتی ہے جو قرآن کریم کی تلاوت کرنے سننے یا اشعار سننے سے آتی ہے قریب ہے کہ اس سے ان کے اعضاء ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔( وہ اشعار جن میں رسول اکرم ﷺ کی صفت کی گئی ہو یا اولیاء کرام کی مدح پر مشتمل ہوں ) اور ہم نے یہ مشاہدہ کیا حضرت خالد رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں جو طریقہ نقشبندیہ میں تھے اور نماز کے دوران یہ حالت عارض ہونے کی وجہ سے اکثر وہ نماز میں چیختے تھے۔ اسی وجہ بعض سالکین نماز کا اعادہ کرتے تھے اور بعض نہیں کرتے ان لوگوں پر بہت انکار کیا جاتا ہے اور میں نے بعض منکرین سے سنا ہے وہ کہتے ہیں اگر یہ حالت عقل و شعور کی موجودگی کے با وجود عارض ہو جائے تو یہ بےادبی ہے اور اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اگر یہ حالت عقل و شعور کی عدم موجودگی میں آ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ وضو نہیں کرتے۔ میں ان کو جواب دیتا ہوں جن کا خیال ہے کہ وجد اور اس حالت سے نماز اور وضو دونو ٹوٹ جاتے ہیں کہ یہ حالت غیر اختیاری ہے عقل و شعور کے ساتھ اس کی مثال کھانسی یا چھینک جیسی ہے اس لیے اس سے نہ تو نماز باطل ہوتی ہے اور نہ وضو ٹوٹتا ہے۔ اور شوافع نے کہا ہے کہ اگر نمازی پر ہنسنا غالب آجائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہے اور نمازی اس صورت میں معذور سمجھا جائیگا ۔ بعید نہیں کہ تجلیات غیر اختیاریہ کے آثار کو بھی اس کے ساتھ ملحق کیا جائے اور عدم فساد صلٰوۃ پر حکم کیا جائے اور کسی چیز کے غیر اختیاری ہونے سے اس چیز کا غیر شعوری ہونا لازم نہیں کیونکہ مرتعش کی حرکت غیر اختیاری ہے اور غیر شعوری نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عقل اور شعور موجود ہوتے ہیں اور یہ تو ظاہر باہر کا معاملہ ہے ۔ پس اس سے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ (تفسیر روح المعانی سورة الأعراف آیت١٥٥)

سورة الحديد ٥٧:١

ترجمہ:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جو اترا اور ان جیسے نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت دراز ہوئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت فاسق ہیں۔

تفسیر :اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں امام فخر الدین رازی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں یعنی حقیقت میں مومن مومن نہیں ہوتا مگر خشوع قلب کے ساتھ اور رونا اور بے اختیار گرنا ﴿یعنی وجد و حال﴾ باعث زیادتی خشوع قلب ہے۔(تفسیر کبیر ص ۹۳ جلد ۸)

سورة الحشر ٥٩:٢۱

ترجمہ:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتارتے تو ضرور تو اسے دیکھتا جھکا ہوا پاش پاش ہوتا اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں لوگوں کے لئے ہم بیان فرماتے ہیں کہ وہ سوچیں۔

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :قلب کی طما نیت ،شدت خوف سے جسم کی لرزش ، قلب کی رقت ، نرمی اور خشوع وجد ہی کے مختلف مظاہر ہیں، اگرچہ یہ مظاہر حالات کے قبیل سے ہیں ، مکاشفات کے قبیل سے نہیں ، لیکن کبھی کبھی یہ حالات بھی مکاشفات کا سبب بن جاتے ہیں۔(احیاء علوم الدین، کتاب آداب السماع و الوجد ص٤٦٦ )

یہ آیت کریمہ اثبات وجد پر صریح دلیل ہے جب قرآن کریم کے نزول سے پہاڑ ٹکڑے ٹکڑ ے ہوتا ہے تو چاہئے کہ انسان کے بدن اور دل پر بھی اس کے آثار طاری ہوں جیسے رونا ، بے ہوش ہونا ، لرزہ طاری ہونا یا دیگر احوال جو وجد کی حالت میں پیش آتے ہیں ۔

سورة الأعراف ٧:١٤٣

ترجمہ:اور جب موسٰی ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا عرض کی اے رب میرے مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کر دیا اور موسٰی گرا بے ہوش پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔تفسیر مظہری میں اس آیت کی تفسیر دیکھیں

سورة يوسف ١٢:٣١

ترجمہ:تو جب زلیخا نے ان کا چرچا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دی اور یوسف سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنس بشر سے نہیں یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہدیکھیں تفسیر روح البیان

وجد احادیث مبارکہ، صحابہ کرام، تابعین تبع تابعین اور اولیائے کرام سے

حدیث ۱:حدّثنا عبد الله حدثني أبي، ثنا عبد الصمد قال: ثنا حماد ، عن ثابت ، عن أنس قال: كانت الحبشة يزفنون بين

يدي رسول الله صلى الله عليه وسلّم ويرقصون ويقولون: محمد عبد صالح ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلّم: ما يقولون؟ قالوا: يقولون: محمد عبد صالح

ترجمہ :’’حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حبشی حضور ﷺ کے سامنے موجود تھے اور رقص کرتے تھے (یرقصون) اور کہتے تھے محمدﷺ عبد صالح حضور نبی اکرم ﷺ نے پوچھا یہ کیا کہتے ہیں انہوں نے کہا محمد ﷺ عبد صالح‘‘

(مسند احمد ابن حنبل جلد۳ ص۱۵۲)اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری اور مسلم واے ہیںشیخ شعیب الارنؤوط نے اس حدیث کے بعد کہا :إسناده صحيح على شرط مسلم

امام ابن حجر الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ﴿رف ترجمہ﴾کبہ بجانا ممنوع ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن رقص کرنا نہیں ، نہ ہی ممنوع ہے اور نہ ہی ناپسندیدہ ، کیونکہ یہ صرف حرکات ہیں جو جھک کر اور کھڑے ہو کر کی گیئں، اور مزید کیونکہ آپ ﷺ نے عید کے دن حبشیوں کا مسجد نبوی ﷺ میں ایسا کرنے پر اتفاق کیا (یعنی ایسا کرنے دیا) جیسا کہ بخاری اور مسلم نے روایت کیا ۔بولڈ میں جو لکھا ہوا ہے وہ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ کی المنھاج سے ہے جبکہ باقی امام ابن حجر کی شرح ہے ۔﴿تحفہ المحتجا فی شرح المنھاج ﴾

امام احمد ابن حنبل رحمتہ اللہ علیہ جو کہ خود سلف ہیں کے علاوہ مزید جن آئمہ حدیث اور آئمہ لغت نے اسے رقص کہا ہے :

۱ امام طبرانی رحمتہ اللہ علیہ نے رقص کہا ، جلد ٩ ص۱۲۱ حدیث ۳٢ امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے سنن الکبری میں ج ٥ ص ۳۰٥٣ امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ، شرح بخاری ص۱۲۳٤ امام جوہری نے اپنی کتاب الغت ص٤٦٥ امام ابن منظور ، لِسان العرب جلد ۱۳ ص١٩٨٧،١٩٧٦ امام نووی رحمتہ اللہ علیہ نے ، شرح صحيح مسلم ص ٣٤٧٧ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ، شرح صحيح مسلم ص ٤٢٩٨ علامہ المرتضیٰ الزبیدی رحمتہ اللہ علیہ ، تاج العروس جلد ۱۸ ص ۲٢١،۲۰٦

حدیث ۲:حَدَّثَنَا أَسْوَدُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ هَانِئِ بْنِ هَانِئٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعْفَرٌ وَزَيْدٌ قَالَ فَقَالَ لِزَيْدٍ أَنْتَ مَوْلَايَ فَحَجَلَ قَالَ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ أَنْتَ أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي قَالَ فَحَجَلَ وَرَاءَ زَيْدٍ قَالَ وَقَالَ لِي أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ قَالَ فَحَجَلْتُ وَرَاءَ جَعْفَرٍ

ترجمہ :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، نبی کریم ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا:زید! آپ ہمارے آزاد کردہ غلام ہیں ( أَنْتَ مَوْلَايَ) تو اس پر انہوں نےنبی کریم ﷺ کے گرد ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت جعفر سے فرمایا : جعفر! آپ صورت اور سیرت میں میرے مشابہ ہیں اس پر حضرت جعفر نے بھی حضرت زید کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے(فحجل) ،پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا : علی! آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں اس پر انہوں نے بھی حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پے چکر لگانے شروع کر دیے (فحجلت) ‘‘

(مسند احمد ابن حنبل جلد۱ ص۵۳۷ ، حدیث۸۵۷)

محدث شیخ احمد شاکر نے اپنی مسند احمد کی تحقیق میں کہا ’إسناده صحيح‘ (مسند احمد جلد ١ ص٥٣٧ حدیث ٨٥٧)امام البزار رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں ﴿ البزار ، المسند جلد ٢ ص ٣١٦ حدیث ٧٤٤ ﴾امام الهیثمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام البزار رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اس کو صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ، (مجمع الزوائد جلد٥ ص۱۵۷)امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی سنن الکبری میں روایت کیا ہے (جلد ١٠ ص ٢٢٦ حدیث ٢٠٨١٦)امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ ﴿ نسائی ، السنن الکبریٰ جلد ٥ ص ۱٦٨،۱٢٧ ۔ ٨٥٧٨، ٨٤٥٦ ﴾امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ ﴿ ابن حبان الصحیح جلد ١١ ص ٢٢٩ حدیث ٤٨٧٣ ﴾امام ابن سعد رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی طبقات میں (جلد ٤ ص ٢٢)

امام الحافظ البیہقی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:وفي هَذَا إنْ صَحَّ دلالةٌ على جوازِ الحَجْلِ، وهو أَنْ يَرْفَعَ رِجْلاً ويَقْفِزَ على الأُخْرَى مِنَ الفَرَحِ، فالرقصُ الَّذِي يكونُ عَلَى مِثَالِهِ يكونُ مِثْلَهُ في الجوازِ. والله أعلمُرف ترجمہ:اس حدیث میں صحیح ثبوت اور جواز ہے حجل (رقص) کا جس میں خوشی کی حالت میں اوپر اٹھنا اور کودنا شامل ہے اور اسی طرح رقص کرنا جو اس جیسا ہو کا بھی جواز ہے ۔ واللہ اعلم(سنن البیہقی الکبری ١٥/٣٣٣)

نوٹ:اس حدیث کے ایک راوی هانی بن هانی جن پر سلفی جرح ثابت کرتے ہیں ، یہ رہی اس پر مفسر تعدیل:

محدثین نے کہا :هانئ بن هانئ عن على رضى الله عنه. قال ابن المدينى: مجهول. وقال النسائي: ليس به بأس. وذكره ابن حبان في الثقاتترجمہ:ھانی بن ھانی نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا، ابن المدينى نے کہا: وہ مجھول ہے ، امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا :اس میں کوئی نقص نہیں، اور ابن حبان نے اس کا ذکر اپنی ثقات میں کیا ۔(امام ذہبی، میزان الاعتدال ٧/٧١)

نوٹ:یاد رکھیے کچھ محدثین کی نظر میں مجھول ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ راوی کمزور ہے ، کیونکہ تمام محدثین تمام رجال کے بارے میں نہیں جانتے تھے ، اس لیے اگر دوسرے محدثین نے تعدیل کی ہو اور کچھ نے مجھول کہا ہو تو تعدیل کو ترجیح دی جائے گی ۔۔

۱) امام ترمزی رحمتہ اللہ علیہ:امام ترمزی نے ھانی بن ھانی سے کئی احادیث کو ’حسن صحیح‘ قرار دیا ہے(سنن ترمزی جلد ٥ حدیث ۳۷۹۸)

۲) امام ابن ماجہ رحمتہ اللہ علیہ:امام ابن ماجہ نے اس سے رویت کیا اور سکوت کیا(سنن ابن ماجہ، مقدمہ، حدیث ۱٤۳)

امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ:امام ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں ھانی بن ھانی کا ذکر کیا (٥/٥٠٨)

۳) امام الاجلی رحمتہ اللہ علیہ:امام الاجلی نے کہا :هانىء ابن هانىء، كوفي، تابعي ثقة(ثقات الاجلی جلد۱ ص٤٥٤)

٤) امام الھیثمی رحمتہ اللہ علیہ:امام الھیثمی نے کہا :ورجال أحمد والبزار رجال الصحيح غير هانىء بن هانىء وهو ثقةترجمہ:احمد اور البزار کے رجال صحیح والے ہیں سوائے ھانی بن ھانی کے جو ثقہ ہے(مجمع الزوائد ٨/١٠٢)۔

٥) امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ :امام حاکم رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے ﴿مستدرک الحاکم ۱۷۹ /۳)

ناصر الدین البانی :وھابیہ/سلفیوں کےشیخ نے بھی ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے(صحیح سنن ابن ماجہ ، البانی ۱/١١٩)

جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وھابیہ / سلفیوں کے معروف محدث شیخ احمد شاکر نے اپنی مسند احمد کی تحقیق میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور البانی نے ھانی بن ھانی سے احادیث کو صحیح قرار دیا ہے تو اس کے بعد اب وھابیہ کے لیے کوئی گنجائیش نہیں رہ جاتی اعتراض کرنے کی ۔ الحمدللہ یہ دو ﴿٢﴾ احادیث صوفیاء کے وجد و رقص کے لئے قوی دلیل ہیں ۔

حدیث ٣ :اسی طرح امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے عذاب قبر کے باب میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی راوایت نقل کی :’’ قالت قام رسول اللہ ﷺ خطیبا فذکر فتنه القبر تفتن فیھا المرء فلما ذکر ذالک ضج المسلمون ضجة ای صاحوا صیحة ‘‘ترجمہ:حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فتنہ قبر کا ذکر کیا جو بندے سے امتحان ہوتا ہے۔ جب قبر کی حالت کا ذکر ہوتا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے چیخیں مارنا شروع کیں۔

اور امام نسائی رحمتہ اللہ علیہ ان الفاظ کا اضافہ کیا !’’ حتی حالت بینی وبین ان افھم کلام رسول اللہ ﷺ فلما سکنت ضجتھم قلت لرجل قریب منی ای بارک اللہ فیک ماذا قال رسول اللہ ﷺ فی آخر قوله؟ قال : قد اوحی الی انکم تفتنون فی القبور قریبا من فتنة الدجال‘‘ترجمہ:یہاں تک کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا وہ شور میرے اور حضورﷺ کا کلام مبارک سمجھنے کے درمیان حائل ہواجب حضورﷺ کا خطبہ مبارک ختم ہوا تو میں نے ایک صحابی سے پوچھا کہ آخر میں نبی کریمﷺ نے کیا فرمایا ؟ تو انہوں نے کہا حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ فتنہ دجال کے وقت تم قبر کے فتنے میں ڈالے جاؤ گے۔

١ بخاری ، کتاب الجنائز ج ١ ص ۱۳۸۲ سنن نسائی ، کتاب الجنائز ج ١ ص٢٢٤ ،کتاب التعوذ من عذاب القبر٣ مشکوٰۃ شریف ، باب اثبات عذاب القبر ج ١ ص ٢٦

اب غور کرنا چاہئے کہ نبی اکرم ﷺ کا وعظ و خطبے کے دوران صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا خوفِ الٰہی کے سبب چیخیں مارنا خلافِ ادب تصور کیا جائے گا یا نہیں حضور اکرم ﷺ کی محفل اقدس میں اور حضور ﷺ کی آواز مبارکہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کی آوازیں خوفِ الٰہی کی وجہ سے بلند ہو گئی تھیں۔ کہ چیخیں مار رہے تھے اور اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کرو۔ سورۃ حجرات آیت ٢معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کا خوف الٰہی کے سبب چیخیں مارنا اور رونا غیر اختیاری تھا۔ عقل و شعور کے باعث یہ چیخیں مارنا وجد کے باعث تھا اور یہ بھی اقسام وجد میں سے ایک قسم ہے جس طرح علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کیا ۔

حدیث ٤ :اسی طرح امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں :

حضور اکرم ﷺ نے ایسا بے مثل خطبہ دیا جس کا مثل کوئی خطبہ میں نے کبھی نہیں سنا۔ اس خطبے میں فرمایا : اگر تم جانتے ، جو کچھ میں جانتا ہوں تو بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے اثر کے باعث صحابہ کرام نے اپنے چہرے چھپا لئے اور رونا گریا و زاری کرنا سسکیاں لینا شروع کیں۔

﴿بخاری شریف ، کتاب التفسیر باب قو له تعالٰی ’ لا تسئلوا عن اشیاء ‘ الآیۃ ج ٢ ص ٦٦٥﴾

اس روایت سے بھی وجد ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خوف الٰہی کے باعث رونا ، سسکیاں لینا یہ بھی وجد کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔یہاں تھوڑی سی وضاحت لازمی ہے ۔ کچھ لوگ یہ روایت پڑھ کے کہیں گے کہ یہ تو خشیت کی وجہ سے تھا پھر وجد کیسا ؟تو جواب یہ ہے کہ یہی تو بات سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ یہ بلکل خشیت کے باعث ہی تھا لیکن خوف و خشیت تو دل میں ہوتا ہے لیکن اس کے اثر کی وجہ سے جو حرکات صادر ہوتی ہیں۔ اسے وجد کہتے ہیں ۔ خوف و خشیت کی زیادتی کی وجہ سے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں کبھی آدمی چیخیں مارتا ہے اور کبھی منہ سے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں بے اختیار کبھی جسم کانپنے لگتا ہے کبھی آدمی گر جاتا ہے اور تڑپنے لگتا ہے کبھی آدمی بیہوش ہو کہ گر جاتا ہے اور کئی اللہ کے نیک بندے تو فوت بھی ہو جاتے ہیں ۔ اور نماز میں بھی ایسی حرکات بے اختیار ہو جاتی ہیں فقہ کی کتابوں میں اسکو جائز کہا گیا ہے۔اور جب خوشی عشق و محبت کی کیفیت غالب آجائے تو انسان بے اختیار رقص شروع کردیتا ہے کبھی کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور کبھی دوڑنے لگتا ہے ۔

عشق الٰہی ، خوف الٰہی، عشق رسول ﷺ یا اپنے شیخ کی محبت یا کسی ولی اللہ کی محبت جیسی کیفیات جب کسی پہ غالب آجائیں تو اس وقت جو حرکات اس سے صادر ہوتی ہیں وہ وجد کہلاتی ہیں یہ بے اختیار ہوتی ہیں جیسے کھانسی اور چھینک وغیرہ جیسے افعال بے اختیار ہوتے ہیں ۔ اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اثرات اور کیفیات احادیث مبارکہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تابعینؓ ، تبع تابعینؓ اور اولیائے کرامؓ سے ثابت ہیں ۔ پہلے بھی یہ بات کہی پھر وضاحت کرتے ہیں کہ ہم ہر گز جعلی صوفیاء کے رقص یا ریا کاری اور دکھلاوے کے وجد کے حق میں نہیں ہیں نہ ہی اسکو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان پہ فتوے بھی ہمارے اہل سنت و الجماعت کے اپنے علماء نے لگائے ہیں انشاءاللہ آگے پیش کیے جائیں گے ۔

حدیث ٥ :حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :جب رب الکریم نے اپنے نبی ﷺ پر یہ آیت کریم نازل کی جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے ۔ترجمہ:’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘‘یہ آیت کریمہ ایک دن نبی کریمﷺ نے اپنے اصحاب کے سامنے تلاوت کی ایک نوجوان لڑکا سنتے ہی بے ہوش ہوگیا۔نبی کریم ﷺ نے اس کے دل پر اپنا ہاتھ مبارک رکھا اس کا دل دھڑک رہا تھا نبی کریم ﷺ نے فرمایا !کہو ’’ لا اِله الا اللہ ‘‘ اور اس کے ساتھ ہی جنت کی خوشخبری سنائی۔

﴿الترغیب والترھیب جلد ٤ ص ٢٣٣﴾

حدیث ٦ :حضرت عقبہ بن مسلم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ شفیا الاصجی نے فرمایا ہے کہ میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا میں نے ایک آدمی دیکھا جس کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے جواب میں کہا یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں شفیا الاصجی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قریب بیٹھ گیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں کو حدیث بیان کر رہے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ چلے گئے تو میں نے عرض کیا کہ مجحھے کوئی ایسی حدیث بیان کریں جو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو اور یاد کی ہو ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں تم کو ایسی حدیث بیان کرونگا جو مجھے نبی کریم ﷺ نے بیان کی ہو جو میں نے سمجھی ہو اور یاد کی ہو ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ سردار کونین ﷺ کے اسم شریف کو پہنچ جاتے تو بیہوش ہو جاتے۔ پھر جب بیدار ہوتے تو نبی کریم ﷺ کا نام لیتے ہی بے ہوش ہو جاتے ۔ پھر بیدار ہوتے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو مسخ کرتے۔

﴿ جامع الترمزی ج ٦ ص ٦١ ابواب الزھد﴾

یہ حدیث شریف بھی اثبات وجد کیلئے قوی دلیل ہے اس لئے کہ غشی اور بے ہوشی بھی وجد کی انواع میں سے ایک نوع ہے ۔

حدیث ۷ :’’ عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال : اکثر وا ذکر اللہ تعالٰی حتی یقولوا مجنون ‘‘ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں مجنون ﴿دیوانہ﴾ کہیں۔

احمد ابن حنبل المسند ج٣ ص ٦٨، ج ٣ ص ٧١ابن حبان الصحیح ج ٣ ص ٩٩ابو یعلٰی المسند ج ٢ ص ٥٢١حاکم المستدرک ج ۱ ص ٦٧٧بیھقی شعب الایمان ج ١ ص ٣٩٧منذری الترغیب والتریب ج ٢ ص ٢٥٦ھیثمی مجمع الزوائد ج ١٠ص ٧٥قرطبی الجامع لاحکام القرآن ج ٢ ص ١٩٧ابن کثیر تفسیر القرآن العظیم ج ٣ ص ٤٩٦

ایک اور روایت میں ہے :’’ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال : قال رسول اللہ ﷺ اذکرو اللہ ذکا یقول المنافقون : انکم تراؤون ‘‘ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر اس قدر کرو کہ منافق تمہیں ریا کار کہیں ۔

الکنز الثمین فی فضیلۃ الذکر والذاکرین ص ٩٤طبرانی المعجم الکیر ج ٢ ص ٨١ابن رجب جامع العلوم والحکم ج ١ ص ٤٤٤ابن کثیر ج ٣ ص ٤٩٦ابو نعیم حلیۃ الولیاء و طبقات الاصفیاء ج ٣ ص ٨١

حدیث ٨ :حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی۔ترجمہ :’’اور جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں ‘‘پھر فرمایا! یہ آگ ہزار سال تک جلتی رہی حتٰی کہ سرخ ہو گئی پھر ہزار سال تک جل کر سیاہ ہوئی نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک کالا آدمی تھا اس نے چیخ مار کر رونا شروع کر دیا ۔ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا :یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کے سامنے رونے والا کون ہے ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ یہ حبش کا ایک آدمی ہے ۔ آپ ﷺ نے اس کی اچھی صفت و مدح بیان فرمائی پھر فرمایا :کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ : کسی انکھ سے میرے خوف کی وجہ سے آنسو نہیں بہتا مگر میں ضرور جنت میں اس کے لیے ہنسنا زیادہ کرونگا ۔﴿ الترغیب والترھیب ج ٤ ص ٣٤۔٢٣٣ ﴾

حدیث ٩ :امام ترمذی رحمتہ اللہ تعالٰی علیہ نے شمائل ترمذی میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک رویت نقل کی ہے

ایک دفع حضور اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں سورج گرہن ہو گیا آپ ﷺ نماز کیلئے اٹھے اور اتنا لمبا قیام فرمایا کہ محسوس ہوا کہ رکوع ہی ادا نہ فرمائینگے بعد اذاں رکوع ادا فرمایا رکوع بھی طویل فرمایا قریب تھا کہ سر مبارک حالت رقوع سے اٹھا نہ فرمائیں گے پھر سر مبارک اٹھایا اور پھر بہت دیر کھڑے رہے پھر سجدہ ادا فرمایا سجدہ بھی طویل فرمایا اور سجدوں کے درمیان جلسہ بھی نہایت طویل فرمایا۔ پھر دوسرا سجدہ ادا فرمایا یہ بھی طویل سجدہ تھا سجدے میں حضورﷺ اوہ اوہ فرما رہے تھے اور گریہ و زاری جاری تھی۔ ﴿ رواہ الترمذی : ١٦٩ ، باب : ما جاء فی بکاء النبی ﷺ﴾

اور ابو داؤد شریف میں یہ الفاظ موجود ہیں : ﴿و قال فی سجدته اُف اُف﴾ حضور نبی اکرم ﷺ نے حالت نماز میں اُف اُف کہا۔

اس حدیث سے بھی وجد ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا حالت نماز میں اف اف کرنا کثرت خشیت کی وجہ سے ہے اور فقہائے کرام نے فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص حالت نماز میں اللہ کے خوف کی وجہ سے یا پھر جنت یا دوزخ کے خیال سے روتا ہے اور رونے میں اف و آہ کرتا ے یا الفاظ حاصل ہوتے ہیں اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ یہ خوف عین اللہ کا خوف اور یاد الٰہی کی وجہ سے ہے ۔ اوپر پیش کی گئی علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ کی عبارت پڑھیں مزید اس پر بھی دلائل دیے جائیں گے۔ انشاءاللہ عزوجل

حدیث ١٠ :امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی باب میں حضرت مطرب بن عبداللہ بن شخیر رضی اللہ تعا لٰی عنہ سے روایت نقل کی ہے وہ اپنے والد سے :

’’ قال اتیت رسول اللہ ﷺ وھو یصلی ولجوفه ازیر کازیر المرجل من البکاء۔ و فی روایۃ ازیر الرحی‘‘

ترجمہ:وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور ﷺ کے قریب حاضر ہوا تو آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے آپ ﷺ کے سینہ مبارک سے ابلتی ہوئی ھانڈی کی طرح آواز آرہی تھی جو کہ آپ ﷺ کے گریہ کے سبب تھی۔﴿رواہ الترمذی باب : ما جاء فی بکاء النبی ﷺ﴾

دوسری روایت میں یہ ہے کہ چکی گھومنے کی طرح آواز خارج ہو رہی تھی۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :بعض صوفیاء عظام پر جب خوف الٰہی غالب آجاتا ہے تو وہ رونے لگتے ہیں اور ان کے اعضاء حرکت کرتے ہیں جیساکہ :حضور پاکﷺ جب رات کو نماز پڑھتے تو آپ ﷺ کے

سینے مبارک سے ہانڈی کے جوش مارنے کی آواز آتی۔

﴿حجتہ اللہ البالغہ ج٢ ص ٩٩﴾

فتح القدیر میں اس حدیث شریف سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ:یہ حدیث مبارکہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ پر حجت ہے اس لئے کہ امام شافعی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اہ اوہ اور رونا مطلقاً نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ جب ان سے حروف حاصل ہو جائیں حالانکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ھانڈی کے ابلنے سے حروف ضرور حاصل ہوتے ہیں اگر کوئی شخص کان لگا کر سن لے۔

﴿فتح القدیر شرح ھدایه: باب یفسد الصلٰوۃ وما یکره فیھا ج ١ ص ٣٤٦﴾

حدیث ١١ : امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ البدایہ والنہایہ میں یہ روایت نقل کرتے ہیں :

ابواراکہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے فجر کی نماز حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی اور جب آپ دیئں جانب مڑے تو آپ ٹھہر گئے ، گویا آپ غمگین ہیں اور جب مسجد کی دیوار پر سورج ایک نیزہ بھر آیا تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر اپنے ہاتھ کو پلٹ کر فرمایا’ خدا کی قسم میں نے محمد مصطفیٰ ﷺ کے اصحاب کو دیکھا ہے اور آج میں ان کی مانند کسی چیز کو نہیں دیکھتا ‘ وہ صبح کو خالی پیٹ پرا گندہ مُو غبار آلودہ حالت میں اٹھتے‘ اور خدا کی خشنودی کی خاطر رات گزارتے اور کتاب اللہ کی تلاوت کرتے اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں پر باری باری آرام کرتے اور صبح کرتے

Comments

Popular Posts