مستنصر حسین تارڑ۔۔۔مدینہ اور ۔۔ رمضان شریف
آج بھی مدینہ کے شہری کسی اجنبی کو دیکھتے ہیں تو اُسے محمد کہہ کر پکارتے ہیں اور ساتھی کو یا صدیق - لہٰذا یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس میں ہر مہمان، ہر اجنبی کا نام محمد اور ہر ساتھی صدیق ہے ۔ انصار نے حضورﷺ کی تواضح کی اور ان کی نسلیں حضورﷺ کے مہمانوں کی خدمت کر رہی ہیں۔
رمضان میں پورا مدینہ اشیائے خورونوش لے کر مسجد نبوی ﷺ حاضر ہو جاتا ہے - دستر خوان بچھا دیے جاتے ہیں، میزبانوں کے بچے مسجد نبوی ﷺ کے دالانوں، ستونوں اور دروازوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حضور ﷺ کا جو بھی مہمان نظر آتا ہے وہ اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر افطار کی دعوت دیتے ہیں ۔ مہمان دعوت قبول کر لے تو میزبان کے چہرے پر روشنی پھیل جاتی ہے، نامنظور کر دے تو میزبان کی پلکیں گیلی ہو جاتی ہیں -
میں مسجد نبوی ﷺ میں داخل ہوا تو ایک سات آٹھ برس کا بچہ میری ٹانگ سے لپٹ گیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا:
’’چچا، چچا آپ میرے ساتھ بیٹھیں گے‘‘
میرے منجمد وجود میں ایک نیلگوں شعلہ سا لرز اٹھا، میں نے جھک کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا اور سوچا کہ یہ لوگ واقعی مستحق تھے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اللہ کے گھر سے اٹھ کر ان کے گھر آ ٹھہرتے اور پھر واپس نہ جاتے۔
وہاں روضہ اطہر کے قریب ایک دروازہ ہے "باب جبرائیل" - آپ ﷺ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنھا کے حجرہ مبارک میں قیام فرماتے تھے - افطار کا وقت ہوتا، دستر خوان بچھتا، گھر میں موجود چند کھجوریں اور دودھ کا ایک آدھا پیالہ اس دستر خوان پرچن دیا جاتا -
سیدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے لیے کھڑے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
’’عائشہ باہر دیکھئے باب جبرائیل کے پاس کوئی مسافر تو نہیں‘‘
آپؓ اٹھ کر دیکھتیں، واپس آ کرعرض کرتیں:
"یا رسول اللہ ﷺ وہاں ایک مسافر بیٹھا ہے۔‘‘
آپﷺ کھجوریں اور دودھ کا وہ پیالہ باہر بھجوا دیتے -
میں جونہی باب جبرائیل کے قریب پہنچا، میرے پیروں کے ناخنوں سے رانوں کی ہڈیوں تک ہر چیز پتھر ہو گئی، میں وہی بیٹھ گیا، باب جبرائیل کے اندر ذرا سا ہٹ کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں میرے حضور ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
میں نے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچا،
"آج بھی رمضان ہے، ابھی چند لمحوں بعد اذان ہو گی، ہو سکتا ہے آج بھی میرے حضور ﷺ حضرت عائشہؓ سے پوچھیں:
’’ذرا دیکھئے باہر کوئی مسافرتو نہیں‘‘
اور ام المومنین عرض کریں گی:
’’یا رسول اللہﷺ باہر ایک مسافر بیٹھا ہے، شکل سے مسکین نظر آتا ہے، نادم ہے، شرمسار ہے، تھکا ہارا ہے، سوال کرنے کا حوصلہ نہیں، بھکاری ہے لیکن مانگنے کی جرأت نہیں، لوگ یہاں کشکول لے کر آتے ہیں‘ یہ خود کشکول بن کر آ گیا، اس پر رحم فرمائیں یا رسول اللہﷺ، بیچارہ سوالی ہے، بے چارہ بھکاری ہے‘‘ -
اور
پھر میرا پورا وجود آنکھیں بن گیا اور سارے اعضاء آنسو !!!!
Comments
Post a Comment