تجوید اور حرف کی اہمیت


 تجوید کیا ہے


*تجوید کی تعریف*


لُغوی معنٰی:

 الاتیان بالجید یعنی کسی کام کا عمدہ کرنا، سنوارنا اورکھراکرنا۔

 اصطلاحی معنٰی :

 ھو علم یبحث فیہ عن مخارج الحروف وصفاتھا وعن طرق تصحیح المعروف وتحسینھا ۔

 یعنی علمِ تجوید اس علم کا نام ہے جس میں حروف کے مخارج اورانکی صفات اورحروف کی تصحیح (صحیح کرنے) اورتحسین (خوبصورت کرنے ) کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ۔

 علم تجوید کا موضوع :کسی علم کے موضوع سے مراد وہ شئی ہے جس کے متعلق اُس علم میں بحث کی جاتی ہے۔ علم تجوید کا موضوع الف سے لیکر ی تک انتیس حروف ہیں کیونکہ اس علم میں ان ہی کے متعلق بحث کی جاتی ہے ۔

 علم تجوید کی غرض وغایت :

 ہرعلم کی کوئی نہ کوئی غرض وغایت

 اورمقصد ہوتاہے ورنہ اس علم کا حصول بے سُود ہوگا۔ علم تجوید کی غرض وغایت یہ ہے کہ قرآن مجید کو اس کے نزول شدہ طریقے کے مطابق عربی لب ولہجہ میں تجوید کی پوری پوری رعایت کے ساتھ صحیح پڑھا جائے اورغلط ومجہول ادائیگی سے بچا جائے۔

 حکم :

 بالتفصیل یہ علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے اور قرآنِ پاک کو نازل شدہ طریقے کے موافق تجوید کے ساتھ پڑھنا فرض عین ہے ۔جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں: اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے حرف سے صحیح ممتاز ہو فرضِ عین ہے بغیر اسکے نماز قطعاً باطل ۔

 ثمرہ اورمقصود حقیقی: تحصیلُ رِضاءِ الٰہی وَتحصیلُ سَعَادَۃِ الدَّارَیْن 

 یعنی اللہ عزوجل کی خوشنودی اوردونوں جہاں میں 

سعادتمندی حاصل کرنا اسکا ثمرہ ہے ۔

*کچھ ضروری اصطلاحات*


(۱)حروف : الف سے یا تک تمام حروف ہیں جن کی تعداد ۲۹ ہے ان کو حروف تہجی کہتے ہیں۔

 (۲)حروف حلقی : وہ تما م حروف جو حلق سے ادا ہوتے ہیں ان کی تعداد ۶ ہے اوروہ یہ ہیں (ء ، ھ ، ع ، ح ، غ ، خ)

 (۳) حروف مستعلیہ : وہ حروف جو ہر حال میں پُر پڑھے جاتے ہیں ۔ان کی تعداد۷ہے ۔ (خ، ص،ض، ط،ظ ،غ اورق )حروفِ مستعلیہ کا مجموعہ خُصَّ ضَغْطٍ قِظْ ہے ۔

 (۴)حروف شفوی : وہ حروف جو ہونٹوں سے ادا ہوتے ہیں ۔ تعداد کے اعتبار سے ۴ہیں ۔(ب ۔م۔ و۔ ف)

 (۵)حروفِ مدّہ: (حروف ہوائیہ )وہ حروف جو ہوا پر ختم ہوجاتے ہیں ۔ انکی مقدار ایک الف کے برابر ہوتی ہے ۔ ا ماقبل مفتوح ، و ساکن ماقبل مضموم، ی ساکن ماقبل مکسور۔

 (۶)حروفِ لین: وہ حروف جو نرمی سے پڑھے جاتے ہیں ۔ و اور ی ساکن ماقبل مفتوح ۔

 ( ۷)حرکت : زبر، زیراور پیش میں سے ہر ایک کو حرکت کہتے ہیں اور ان کو مجموعی طور پر حرکات کہتے ہیں ۔

 (۸) فتحہ اشباعی : کھڑے زبر کو کہتے ہیں ۔

 (۹)ضَمّہ اشباعی : اُلٹے پیش کو کہتے ہیں۔

 (۱۰)کسرہ اشباعی :کھڑے زیر کو کہتے ہیں ۔

 (۱۱)متحرک : جس حرف پر حرکت ہو اسے متحرک کہتے ہیں ۔

 (۱۲)فتحہ : زبر کو کہتے ہیں ۔جس حرف پر فتحہ ہو اسے مفتوح کہتے ہیں ۔

 (۱۳)کسرہ : زیر کو کہتے ہیں ۔ جس حرف کے نیچے کسرہ ہو اسے مکسور کہتے ہیں ۔

 (۱۴)ضَمّہ : پیش کو کہتے ہیں ۔ جس حرف پر ضمہ ہو اُسے مضموم کہتے ہیں۔

 (۱۵)تنوین : دو زبر ً ، دو زیر ٍ اوردو پیش کو کہتے ہیں اورجس حرف پر تنوین ہو اسے مُنَوَّنْ کہتے ہیں ۔

 (۱۶)نونِ تنوین : تنوین کی ادائیگی میں جو نون کی آواز پیدا ہوتی ہے اسے نونِ تنوین کہتے ہیں۔

 (۱۷)ما قبل حرف: کسی حرف سے پہلے والے حرف کو کہتے ہیں۔

 (۱۸)مابعد حرف: کسی حرف کے بعد والے حرف کو کہتے ہیں۔

 (۱۹)ترتیل : بہت ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا (علمِ تجوید اورعلمِ وقف کی رعایت کے ساتھ صحیح وصاف پڑھنا)جیسے قراء حضرات محافل میں تلاوت کرتے ہیں ۔

 (۲۰)حدر : جلدی جلدی پڑھنا جس سے تجوید نہ بگڑے ۔ جیسے اما م تراویح میں پڑھتا ہے ۔

 (۲۱)تدویر:ترتیل اورحدر کی درمیانی رفتار سے پڑھنا (جس طرح امام فجر ، مغرب اورعشاء میں قدرے بلند آوازمیں پڑھتا ہے)

 (۲۲)اظہار : (ظاہر کرنا)نون ساکن ، نون تنوین اورمیم ساکن کو بغیر غنہ کے ظاہر کر کے پڑھنا۔

 (۲۳)اقلاب:(تبدیل کرنا)نون ساکن اورنونِ تنوین کو میم سے بدل دینا (یہ صرف اس کے ساتھ خاص ہے )

 (۲۴)اِخفاء : (چھپانا)نون ساکن اورمیم ساکن کو چھپاکر ادا کرنا۔

 (۲۵)غُنّہ : ناک میں آواز لے جانا۔

 (۲۶)موقوف علیہ : جس حرف پر وقف کیا جائے ۔

 (۲۷)وقف:وقف کا لغوی معنٰی ٹھہرنا، رکنا ۔ اصطلاح تجوید میں کلمہ کے آخر پرسانس اورآواز توڑ دینا اورموقوف علیہ (جس پر وقف کیا جائے )اگر متحرک ہوتو ساکن کردینا وقف کہلاتاہے۔

 (۲۸)اِدغام : (ملانا)دوحرفوں کو ملادینا۔ (پہلا مدغم اوردوسرا مدغم فیہ کہلاتاہے)

 (۲۹)مُدْغَمْ فِیہ : جس حرف میں ادغام کیا گیا ہو۔

 (۳۰)سکون : سکون جزم کو کہتے ہیں ۔

 (۳۱)ساکن :جس حرف پر سکون ہو اسے ساکن کہتے ہیں ۔

Comments

Popular Posts