شیخ بہانی رحمتہ اللہ علیہ کی سایٸنس میں مہارت

 


ہم نے ہمیشہ نیوٹن اور آئن سٹائن کو پڑھا ہے

لیکن تاریح میں ایسے  علماء گزرے ہیں جنکا مقابلہ آج تک کوئی نہیں کر سکتا.

اسکا ایک مثال یہ ہے

شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کا سائنسی علوم پر مہارت


شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کی انجینئرنگ اور ریاضی پر زبردست مہارت تھی کہ آج اتنی ترقی کے باوجود دنیا ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بطور مثال ایران میں مسجد چہل ستون ہے جس کے بیس ستون دریا کے کنارے اس طرح بنائے گئے ہیں کہ جب آپ سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں تو چالیس ستون نظر آتے ہیں۔ بیس ستونوں کا عکس کچھ اس انداز سے دریا پر پڑتا ہے کہ پورے چالیس ستون ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ وہ پوری مسجد شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کی تیار کردہ ہے۔

اصفہان میں تین پُل ہیں ان میں سے ایک پُل شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی نگرانی میں بنایا تھا اس کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگ سمجھ لیں گے جو دریا کے  بہاؤ کو جانتے ہیں۔ کہ دریا جب بہتا ہے تو درمیان میں اور کنارے میں ایک جیسا بہاؤ نہیں ہوتا۔ بیچ میں زیادہ ہوتا ہے اور کناروں میں کم ہوتا ہے۔ مگر یہ پل آج کل کا ڈیم یا بند نہیں۔ یہ پُل شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس طرح تعمیر کروایا کہ اس کے تینتیس دروازے ہیں اور سیلاب آئے، طوفان آئے یا پانی کم ہو جائے یا عام دن ہوں تو ہر دروازے سے یکساں طور پر پانی نکلتا ہے۔ یہ کوئی ڈیم نہیں یہ پانچ سو سال پہلے اپنے سامنے بنوا کر اپنی نگرانی میں اتنی مہارت کے ساتھ اس پُل کو بنوایا تھا کہ آج تک لوگ اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔

اصفہان میں ایک عمارت ہے اس کے دو مینار ہیں۔ 30 اور 50 فٹ کے ان میناروں کو آج تقریباً پانچ سو سال ہو چکے ہیں۔ ان کی خوبی یہ  ہے کہ اگر ایک مینار پر ایک آدمی چڑھے اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر مینار کو ہلائے تو وہ ہلنے لگتا ہے اور اس کے تیس فٹ کے فاصلے پر اس کو ہلتا دیکھ کر دوسرا مینار خود بخود ہلنے لگتا ہے۔ کیا انجینئرنگ، کیا معجزہ، کیا کمال ہے۔ پانچ سو سال گزر گئے اب تک اس کا راز معلوم نہیں ہو سکا۔ یہ شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کا تیار کردہ مینار ہے۔

اسی طرح اصفہان میں ایک حمام تھا، اگرچہ انگریزوں نے اسے تباہ کر دیا۔ مگر آج تک یہ حمام شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ ایران کی زیارات پر جانے والے جانتے ہیں کہ وہاں گھر پر نہانے کا رواج نہیں تھا۔ اب تقریباً تیس سال پہلے سے گھروں میں غسل خانے بنانے کا رواج شروع ہوا ہے، ورنہ پہلے نہ تھا۔ خیر لوگ اس حمام پر جاتے تھے نہانے کے لیے، اس حمام کی خوبی یہ تھی اس کا جو ذخیرہ ٹینک تھا۔ اس میں پانی ہمیشہ گرم ملے گا۔ کوئی گیزر، بجلی وغیرہ نہیں ہمیشہ پانی گرم ملے گا۔ آپ اس میں پانی بھر دیں چاہے سردی ہو یا گرمی ہو، پانی آپ کو گرم ملے گا۔ جب فتح علی شاہ کے زمانے میں انگریز یہاں پہنچے تو وہ بڑے حیران ہوئے۔  کہ آخر یہ کیا ہے اور یہ حمام جس میں بیسیوں نہانے کے لیے کمرے بنے ہوئے ہیں کا پانی اڑھائی سو سال گزر گئے اب تک گرم ہے۔ نہانے والوں کے لیے سردی کے موسم میں گرم پانی سے نہانا کتنا اہم ہے۔ پھر ایک مرتبہ انھوں نے اس حمام کے ٹینک کو توڑا، کہ دیکھیں اس کا راز کیا ہے؟ توڑا تو دیکھا کہ اس کے نیچے فقط ایک مشعل جل رہی ہے۔ اور اس مشعل کو اتنے کمال کے ساتھ اس اینگل اور زاویے پر لگایا گیا کہ جس کی وجہ سے اڑھائی سو سالہ ذرخیز پانی گرم رہتا چلا آ رہا تھا۔ انگریز اس راز کو نہ پا سکا مگر اب اس کا راز معلوم ہوا ہے کہ اصفہان کے گندے پانی سے جو گیسیں پیدا ہوتی تھی اُسے شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ نے اس طرح سے حمام کے نیچے سے گزارا تھا کہ اس کی گیس حمام کا پانی گرم کرنے کا ایندھن تھی۔ یہ شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی نگرانی میں تیار کردہ حمام تھا، یہ ہمارے علماء کا مختلف علوم پر مہارت کا ایک ادنیٰ ثبوت ہے۔

یہی شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ انھوں نے نجف کے اندر جو روضہ امیرالمومنین علیہ السلام تعمیر ہوا تھا۔ اس میں گہرا حصہ لیا تھا۔ شاہ عباس نے اپنی حکومت کو  بڑھایا۔ یہاں تک کہ بغداد، نجف اور کربلا پر اس کا قبضہ ہو گیا اور قبضہ ہونے کے بعد معصومین علیہم السلام کے روضوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ نجف اشرف میں شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ نے امیرالمومنین علیہ السلام کے روضے کی تعمیر میں بہت زیادہ حصہ لیا اور اس روضے کے اندر انجینئرنگ کے بہت سے کمال آپ کی وجہ سے ہیں۔ لوگ زیارت کر کے آجاتے ہیں انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ پانچ سو سال پہلے کی بات ہے شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ  نے امیرالمومنین علیہ السلام کے روضے کو اس طرح تعمیر کروایا۔ مثلاً سب سے پہلے تو اس کے اندر یہ خوبی ہے کہ جب کبھی سردی ہو یا گرمی۔ جاڑآ ہو یا برسات۔ نجف میں جب بھی سورج نکلتا ہے اس کی پہلی کرن روضہ امیرالمومنین علیہ السلام پر آ کر پڑتی ہے۔ مولائے کائنات کے قدموں میں سورج پہلے سجدہ کرتا ہے پھر نجف میں طلوع ہوتا ہے۔ اس خوبی کے ساتھ روضہ کو تعمیر کروایا گیا کہ جب بھی سورج نکلے گا اس کی پہلی کرن روضہ پر پڑے گی اس کے علاوہ حرم کے صحن کی جو دیواریں ہیں ان کی اس خوبی سے بنایا گیا کہ چاہے گرمی ہو یا سردی، نماز ظہر کا وقت تو ہمیشہ آگے پیچھے رہتا ہے۔ کبھی 12:20،12:35،کبھی12:00 اور کبھی پورے 12:45 بجے۔ اس صحن کی دیوار کو اس مہارت سے بنایا گیا ہے کہ سردی ہو یا گرمی دیوار کا سایہ زمین پر آتا ہے۔ ظہر کا وقت اول ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی موسم ہو کیسا بھی موسم ہو۔ اس انداز اور اس اینگل سے اسے بنایا گیا ہے۔ اس دیوار کا سایہ زمین پر آئے گا سمجھ لیجئے ظہر کا وقت شروع ہو گیا۔ یہ شیخ بہائی رحمتہ اللہ علیہ کی انجینئرنگ ہے۔


(تذکرۃ الفقھاء:ص221-223



Comments

Popular Posts