مولا علی کو دیکھنا عبادت
*"مولا علی کو دیکھنا عبادت"*
اللہ جل وعلا نے اپنے اولیاء کو یہ شانِ امتیازی عطا فرمائی کہ جب ان کے چہروں پر نگاہ پڑتی ہے تو رب کی یاد آ جاتی ہے۔ چہرہ دیکھنے کے ساتھ یادِ خداوندی یقینا عظیم ترین عبادت ہے۔ لیکن مولائے کائنات مولا علی وہ ہستی ہیں کہ ان کے چہرۂ اقدس کو فقط دیکھ لینا ہی عبادت ہے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں سے کئی ایک ہستیوں کا یہ عمل مروی ہے کہ وہ مولائے کائنات کے چہرے کو دیکھتے رہا کرتے اور یوں مصروفِ عبادت رہا کرتے۔ انہی ہستیوں میں سے ایک ہستی تاجدارِ صداقت سیدنا صدیقِ اکبر کی ہے۔
👈 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والدِ گرامی سیدنا ابو بکر صدیق سے کہا:
إِنِّي أَرَاكَ تُطِيلُ النَّظَرَ إِلَى وَجْهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.
میں آپ کو دیکھتی ہوں کہ آپ دیر تک حضرت علی کے چہرے کو دیکھتے رہتے ہیں؟
ام المؤمنین فرماتی ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا:
يَا بُنَيَّةُ! سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «النَّظَرُ فِي وَجْهِهِ عِبَادَةٌ»
اے پیاری بیٹی!
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
حضرت علی کے چہرے پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔
(المجالسۃ وجواہر العلم 3503 ، مناقبِ علی لابن المغازلی 252 ، 253 ، حدیث ابی القاسم الحلبی 38 ، مناقب علی بن ابی طالب لابن مردویہ حدیث 53)
❤️ حضرت عثمان ذو النورین:
کچھ اسی قسم کا معاملہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ مولا علی کی جانب پلٹے اور انہیں اپنی جانب پلٹنے کا کہا۔ مولائے کائنات حضرت عثمان کی جانب پلٹے تو حضرت عثمان بن عفان ٹکٹکی باندھ کر حضرت علی کو دیکھنے لگ گئے۔
مولائے کائنات نے فرمایا:
يا عثمان ما لك تمد النظر إلي؟
اے عثمان! کیا بات ہے؟ آپ مجھے لگا تار دیکھے جا رہے ہیں؟
حضرت عثمان نے فرمایا:
سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول النظر إلى علي عبادة.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(مشیخۃ الآبنوسی 168)
👈 ابنِ شاہین کہتے ہیں:
تَفَرَّدَ عَلِيٌّ بِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ، لَمْ يَشْرَكْهُ فِيهَا أَحَدٌ
مولائے کائنات اس فضیلت میں یکتا ہیں ، کوئی بھی اس فضیلت میں مولائے کائنات کا شریک نہیں۔
(شرح مذاہب اہل السنۃ لابن شاہین 103)
🙇 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ:
رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانِ گرامی دس سے زائد صحابۂ کرام وصحابیات سے مروی ہے۔ انہی میں سے ایک ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ کی ذاتِ مقدسہ مطہرہ ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
حضرت علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(حلیۃ الاولیاء 2/182 ، مناقبِ علی لابن المغازلی 245)
❤️ حضرت عبد اللہ بن مسعود:
یونہی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النَّظَرُ إِلَى وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 10006 ، شرح مذاہب اہل السنۃ لابن شاہین 103 ، المستدرک علی الصحیحین 4682 ، 4683 ، حلیۃ الاولیاء 5/58 ، فضائل الخلفاء الراشدین لابی نعیم الاصبہانی 38 ، مناقبِ علی لابن المغازلی 249 ، حدیث ابی القاسم الحلبی 37 ، الحربیات حدیث 23 ، حدیث ابی الحسن السکری 34)
👈 فائدہ:
حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا اور فرمایا:
تَابَعَهُ (ای الاعمشَ) عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ
(المستدرک علی الصحیحین 4682)
اور حافظ ابو نعیم نے اعمش سے چار طرق ذکر کیے۔
(فضائل الخلفاء الراشدین 38)
ابو القاسم خیاط حلبی نے پانچویں طریق سے روایت کیا۔
(حدیث ابی القاسم الحلبی 37)
مجمع الزوائد میں کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ أَحْمَدُ بْنُ بَدَيْلٍ الْيَامِيُّ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ: مُسْتَقِيمُ الْحَدِيثِ، وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
(مجمع الزوائد 9/119)
واضح رہے کہ "احمد بن بدیل الیامی" فقط ایک طریق میں ہیں ، باقی طرق میں موجود نہیں۔ لیکن حافظ ذہبی نے پھر بھی اسے موضوع کہنا اپنی دینی فریضہ سمجھا۔ فالی اللہ المشتکی
❤️ حضرت عمران بن حصین:
حضرت عمران بن حصین سے یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے۔
🌹 پہلا طریق:
طلیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین کو حضرت علی کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتے دیکھا۔
جب حضرت عمران بن حصین سے اس بارے میں بات کی گئی تو آپ نے فرمایا:
سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ رَضِي اللهُ عَنْهُ عِبَادَةٌ»
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
علی کی جانب دیکھنا عبادت ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 207 ، مناقب علی لابن المغازلی 246 ، الطیوریات 2/615 ، فوائد ابی بکر الابہری 58 ، الفوائد المنتقاۃ لابن السماک 18)
مجمع الزوائد میں کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عِمْرَانُ بْنُ خَالِدٍ الْخُزَاعِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ.
(مجمع الزوائد 9/119)
🌹 دوسرا طریق:
محمد بن موسی حرشی کہتے ہیں کہ حضرت عمران بن حصین نے کہا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
النظر على وجه علي عبادة
علی کے چہرے پہ نگاہ عبادت ہے۔
(مناقبِ علی لابن المغازلی 250)
🌹 تیسرا طریق:
حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے اور آپ حضرت عمران بن حصین سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین 4681 ، مناقب علی لابن المغازلی 247 ، 254)
حاکم نے کہا:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ " وَشَوَاهِدُهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ صَحِيحَةٌ
لیکن ذہبی نے اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کے موضوع ہونے کا "باطل دعوی" کیا۔
❤️ حضرت معاذ بن جبل:
جن صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے ان میں حضرت سیدنا معاذ بن جبل کا نام بھی آتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النظر إلى وجه علي عبادة
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(الفردوس بماثور الخطاب 6865 ، مناقب علی لابن المغازلی 244 ، تاریخِ بغداد 2/384)
❤️ حضرت جابر بن عبد اللہ:
یونہی حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے ، فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النظر إلى وجه علي عبادة
علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
(مناقب علی لابن المغازلی 248)
❤️ حضرت واثلہ بن اسقع:
حضرت واثلہ بن اسقع سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النظر إلى علي عبادة
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(مناقبِ علی لابن المغازلی 251)
❤️ حضرت ابو ہریرہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النظر إلى علي بن أبي طالب عبادة
حضرت علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(کتاب المسلسلات لابن الجوزی حدیث 31 ، الکامل فی ضعفاء الرجال 3/195)
❤️ حضرت انس بن مالک:
حضرت انس بن مالک رضی الہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النظر إلى وجه عليّ عبادة
علی کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔
(مناقب علی لابن ابی طالب حدیث 54)
👈 فائدہ:
تاریخِ بغداد میں حضرت انس بن مالک کی روایت کی سند میں "محمد بن قاسم اسدی" ہیں۔
(تاریخِ بغداد 20/24)
قارئینِ کرام!
اسے مؤرخین کی ستم ظریفی قرار دیا جائے یا کچھ افراد کی ملی بھگت سمجھا جائے ، "محمد بن قاسم اسدی" پر جرح کرتے ہوئے انہیں "کذاب" اور ان کی احادیث کو موضوع قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ وہ ترمذی کے رجال سے ہیں اور ابنِ معین نے ان کے ثقہ ہونے کی تصریح کی ہے۔
(اللآلی المصنوعۃ 1/316)
👈 حضرت معاذہ الغفاریہ:
یہ حدیث حضرت معاذہ الغفاریہ سے بھی مروی ہے۔ آپ کہتی ہیں کہ میں دربارِ رسالت میں حاضر ہوئی جبکہ آپ ﷺ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے کاشانۂ اقدس میں جلوہ فرما تھے اور حضرت علی آپ ﷺ کے دربارِ اقدس سے باہر نکل رہے تھے۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے بات کرتے وقت فرماتے سنا:
النظر إلى عليّ عبادة
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(مناقب علی بن ابی طالب لابن مردویہ حدیث 52)
❤️ حضرت ثوبان:
یونہی یہ حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(الکامل فی ضعفاء الرجال 9/22 ، تاریخِ دمشق 42/355)
👈 فائدہ:
اس حدیث کی سند میں یحیی بن سلمہ ہیں جنہیں متروک قرار دیا گیا لیکن علامہ سیوطی کا کہنا ہے کہ وہ رجالِ ترمذی سے ہیں۔
(اللآلی المصنوعۃ 1/316)
❤️ حضرت عبد اللہ بن عباس:
یہ فرمانِ رسول ﷺ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے بھی مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النَّظَرُ إِلَى عَلِيٍّ عِبَادَةٌ
علی کو دیکھنا عبادت ہے۔
(الموضوعات لابن الجوزی 1/359)
قارئینِ ذی قدر!
سطورِ بالا میں یہ حدیث 13 صحابۂِ کرام وصحابیات کے مرویات سے نقل کی گئی جن میں سے بعض صحابہ سے کئی ایک طرق سے بھی مروی ہے۔ آخری روایت ابنِ جوزی کی کتاب الموضوعات کے حوالے سے نقل کر کے قارئینِ کرام سے پوچھنا چاہوں گا کہ:
کیا اس قدر کثیر طرق کے باوجود ابنِ جوزی کا اس حدیث کو کتاب الموضوعات کا حصہ بنانا قرینِ انصاف لگتا ہے؟🤔
اور ابنِ جوزی تو صحیح احادیث کو موضوع قرار دینے میں مشہور ہیں ہی ، کیا ابنِ جوزی کی گفتگو کا بہانہ بنا کر اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کو منصف مزاج کہا جا سکتا ہے؟🤔🤔
ابنِ جوزی کے بعد حافظ ذہبی نے بھی اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے اسے موضوع وباطل قرار دینے کی سعیِ مذموم کی لیکن علامہ سیوطی نے تعقبات میں فرمایا کہ یہ حدیث گیارہ صحابہ سے مروی ہے اور اتنے کثیر طرق سے مروی حدیث تو بعض اہلِ علم کے ہاں متواتر قرار پاتی ہے۔۔۔!!!
👈 عجلونی کہتے ہیں:
قال الحاكم: صحيح. وقال الذهبي: إنه موضوع باطل، وأورده ابن الجوزي في الموضوع، وتعقبه السيوطي: بأنه ورد من رواية أحد عشر صحابيًا
(کشف الخفاء 2/384)
👈 کتانی کہتے ہیں:
حديث النظر إلى على عبادة ورد من رواية أحد عشر صحابياً بعدة طرق قال السيوطي في التعقبات وتلك عدة التواتر في رأي جماعة.
(نظم المتناثر ص243)
💞 اور علامہ محمد طاہر فتنی متوفی 986ھ نے اپنے موقف کے مطابق اس حدیث کے متواتر ہونے کی تصریح کرتے ہوئے کہا:
قلت الْمَتْرُوك وَالْمُنكر إِذا تعدّدت طرقه ارْتقى إِلَى دَرَجَة الضعْف الْقَرِيب بل رُبمَا ارْتقى إِلَى الْحسن وَهَذَا ورد من رِوَايَة أحد عشر صحابيا بعدة طرق وَتلك طرق عدَّة التَّوَاتُر فِي رَأْيِي.
میں کہتا ہوں: متروک ومنکر کے جب متعدد طرق ہوں تو وہ ضعفِ قریب تک جا پہنچتی ہے اور بسا اوقات درجۂ حسن تک بلند ہو جاتی ہے۔ اور یہ حدیث 11 صحابہ سے کئی طرق سے مروی ہے اور یہ میری رائے کے مطابق تواتر کی تعداد ہے۔
(تذکرۃ الموضوعات ص97)
لیکن یہ ساری باتیں اہلِ انصاف کے لیے ہیں ، مبغضینِ مولائے کائنات کے سامنے قرآنِ پاک کی آیات بھی تلاوت کی جائیں جب بھی انہیں مولائے کائنات کی کسی منقبت کو تسلیم نہیں کرنا۔
اور سچ یہ ہے کہ وہ لوگ اس لائق ہی نہیں کہ انہیں مولائے کائنات کی محبت ومودت نصیب ہو ، یہ نصیب کی باتیں ہیں إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ
مالک کریم مولائے کائنات کے چہرۂ انور کے جلوے دیکھنا نصیب فرمائے۔
آمین
بحرمۃ النبی الامین وآلہ الطاہرین
صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم
Comments
Post a Comment