پاکستان میں تعلیم یافتہ لڑکیوں کے شادی کے مساٸل



پاکستان میں ایم فل اب ایک نارمل ڈگری ہو گئی ہے یعنی یونیورسٹی لیول تک پہنچنے والے زیادہ تر سٹوڈنٹس ایم فل تک پڑھتے ہیں۔ ہر ایک یونیورسٹی میں ایم فل کے کئی پروگرامز ہیں اور ہر ایک میں سینکڑوں سٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تقریباً سب میں ہی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں پہلے پانچ دس فیصد سے زیادہ لڑکیاں نہیں ہوتی تھیں لیکن اب کچھ کلاسز میں تو اسی نوے فیصد تک لڑکیاں ہوتی ہیں۔ 

ایم فل مکمل کرنے والی لڑکی اگر کسی بھی کلاس میں فیل نہ ہوئی ہو تب بھی وہ چوبیس پچیس سال کی ہو چکی ہوتی ہے۔ ایم فل کی کلاس میں شاید ہی کوئی شادی شدہ  لڑکی ہوتی ہے۔ اکثر لڑکیوں  کے والدین ایم فل مکمل تک ہر رشتے کو دیکھے بغیر ہی انکار کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تو ہماری بیٹی پڑھ رہی ہے۔ ایم فل مکمل ہونے کے بعد رشتے دیکھنے شروع کیے جاتے ہیں اور اکثر والدین بیٹیوں سے کہتے ہیں کہ جاب کرو اپنا جہیز بناؤ پھر شادی ہو پائے گی۔ اس وجہ سے اب ایک بڑی تعداد کی شادی تیس سال کے بھی بعد میں جا کر ہوتی ہے۔ 

لڑکیاں اور ان کے والدین اپنے سے کم تعلیم یافتہ، کم حیثیت اور کم کمانے والے سے شادی پر راضی نہیں ہوتے۔ 

دوسری طرف کوئی بھی لڑکا اپنے سے بڑی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اور اگر کوئی لڑکا کسی اچھی پوسٹ پر ہوتا ہے تو وہ اگر لڑکی کے پیسے اور جاب کو نہ دیکھ رہا ہو تو پھر وہ اپنے سے آٹھ دس سال چھوٹی لڑکی کو ترجیح دیتا ہے۔ ہاں اپنی ہم عمر لڑکی سے شادی صرف اسی صورت میں کرتا ہے جب اسے لڑکی سے زیادہ اس کی جاب یا پیسے پر نظر ہو۔ 

ایسے میں اکثر اچھے رشتے کی تلاش میں لڑکی کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بھی کئی قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اچھے رشتے ملنے کے چانس کم ہوتے جاتےہیں۔ 

یہ وہ حقیقت ہے جو معلوم تو سب کو ہے کیونکہ اپنے بیٹوں کی شادی کرتے ہوئے وہ یہی سب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور کر رہے ہوتے ہیں لیکن اپنی بیٹی کے لیے وہ اس حقیقت کو پتہ نہیں کیوں فراموش کر دیتے ہیں۔ 

یہ وہ کڑوا سچ ہے جو کوئی بھی سننا نہیں چاہتا۔ 

لڑکی کی شادی کے لیے بہترین عمر اٹھارہ سے چوبیس سال ہے لیکن اکثر والدین اور لڑکیاں خود تعلیم کے نام پر اسے گزار دیتے ہیں۔ 

میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ اٹھارہ سال عمر ہوتے ہی فوراً شادی کر دیں لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ لڑکی کے بالغ ہوتے ہی کوئی بھی رشتہ آئے تو اسے بغیر پرکھے کبھی بھی نہ ٹھکرائیں۔ اور اس وجہ سے تو بالکل بھی نہیں کہ لڑکی ابھی پڑھ رہی ہے۔ 

اگر آپ نے سولہ سالہ تعلیم دلوا دی ہے تو پھر سب سے پہلے اپنی بیٹی سے اس کی پسند پوچھیں اور اسے یقین دلائیں کہ اس کی پسند اگر کوئی ہے تو وہاں اس کی شادی کردی جائے گی۔ 

مزید یہ کہ ذات برادری سے نکل آئیں۔ بچوں کو تعلیم دلوا کر شعور دلوایا ہے تو پھر ان کی پسند کو بھی اہمیت دیں۔ یاد رہے کہ ذات برادری کو اہمیت دینے والی آپ کی یہ آخری جنریشن ہے۔ اس فضول ضد سے جتنی جلدی نکل آئیں آپ کے اور آپکی اولاد کے لیے اتنا اچھا ہے۔ 

یہ بے ربط خیالات ہیں  لیکن اگر ویسے یہ سب آپ کو سمجھ نہیں آرہی تو پھر کل چودہ فروری کو یونیورسٹی  کا چکر لگا لیں کہ وہاں کتنے سٹوڈنٹس آئے ہیں۔ یونیورسٹی کے پاس واقع ریسٹورنٹس میں جوڑوں کو بھی دیکھ لیں اور پاس موجود ہوٹلز کو بھی چیک کر لیں کہ وہاں ریٹس دنوں کی بجائے گھنٹوں کے حساب سے کیوں بتائے جا رہے ہیں۔ اور یہ کسی  سب آپ کسی بھی یونیورسٹی میں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کھل کر نہیں لکھ سکتے ۔

Comments

Popular Posts