Skip to main content

پاکستان اور جمہوریت



میڈیا کا ادھورا کردار


ملک کے سیاسی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو نیچے سے اوپر تک کرپشن، بدعنوانیوں، اقربا پروری کے مناظر ہی نظر آتے ہیں۔ سیاسی عمائدین کے خلاف کرپشن کیسز کی سماعت کو دیکھتے دیکھتے عوام کی سماعت اور بصارت دھندلا جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نیا نہیں، 69 سال سے یہی سلسلہ جاری ہے۔ اس منظرنامے کو دیکھ کر ذہن میں یہ خیال آنا فطری بات ہے کہ یہ سلسلہ ختم کیوں نہیں ہو پاتا؟ اس سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ 69سال سے ملک کا اقتدار اور سیاسی قیادت کرپٹ مافیا کے ہاتھوں میں جکڑی ہوئی ہے۔

اس کا ایک روایتی علاج یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ ہی ان جان لیوا بیماریوں کو دور کرسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت سیاسی تاریخ کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، لیکن کیا واقعی جمہوریت وہی ہے جس کی تعریف سیاسی مفکروں کی طرف سے کی جاتی ہے؟ یہ سوال اس لیے ضروری اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس جواب کی روشنی ہی میں ہم ہماری جمہوریت کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔


اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں روز اول ہی سے زمینی اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھی ہے۔ اور وہ تمام مکروہات جو معاشروں اور ملکوں کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں اس اشرافیائی جمہوریت میں جمع ہیں اس جمہوریت میں ایک اور بدترین خرابی یہ در آئی ہے کہ یہ نام نہاد جمہوریت اب تیزی کے ساتھ ولی عہدی نظام میں تبدیل ہو رہی ہے۔ آپ بڑھتی اشرافیائی جماعتوں کو تو چھوڑئیے، مڈل کلاس پر زمینی، سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں بھی ولی عہدی نظام مضبوط ہوتا جارہا ہے۔


اس بیماری کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی میں جمہوریت اشرافیائی ہی رہے گی۔ ہمارے محترم قلم کار اس حقیقت کو پیش نظر رکھے بغیر کہ جب تک ولی عہدی نظام موجود ہے جمہوریت اشرافیائی ہی رہے گی، عوامی اور حقیقی جمہوریت میں تبدیل نہیں ہو پائے گی۔ چونکہ مڈل کلاس کی جماعتیں براہ راست اقتدار میں نہیں آسکتیں اور اشرافیائی سیاست کی تابع اور فرمانبردار ہی رہ سکتی ہیں، لہٰذا عوام کی قیادت کی توقع ان سے نہیں کی جاسکتی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان حقائق کو نظر انداز کرکے ہمارے اہل قلم جمہوریت کا راگ اس طرح الاپتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔


بے شک سیاسی تاریخ میں جمہوری نظام ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام کہلاسکتا ہے لیکن سوال وہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری جمہوریت ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام کے ذریعے‘‘ کی تعریف پر پوری اترتی ہے؟ اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ ’’ہرگز نہیں‘‘۔ ہمارے جو محترم اہل قلم، اہل دانش اس جمہوریت کی اس مفروضے پر حمایت کرتے ہیں کہ اس کے تسلسل سے ہی اشرافیائی جمہوریت عوامی جمہوریت میں بدل جائے گی، کیا اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ اس اشرافیائی جمہوریت نے عوام کی حکومت، عوام کے لیے کا راستہ چھوڑا ہی نہیں۔ اگر ایک اشرافیائی خاندان میں چار چار، آٹھ آٹھ شہزادے اور شہزادیاں موجود ہوں اور ان کو انتہائی منظم اور منصوبہ بند طریقے سے بادشاہت کے لیے تیار کیا جا رہا ہو اور میڈیا اس نیک کام میں اپنا سارا زور لگا رہا ہو تو پھر مزدوروں کے نمایندے، کسانوں کے نمایندے، غریب طبقات کے نمایندے، وکلا اور ڈاکٹروں کے نمایندے، شاعروں ادیبوں اور صحافیوں کے نمایندوں کو آگے آنے کی جگہ ملے گی؟


ظاہر ہے اس نظام میں ان طبقات کو آگے آنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی تو پھر جمہوریت کے تسلسل سے اشرافیائی جمہوریت عوامی اور حقیقی جمہوریت میں کیسے تبدیل ہوسکے گی؟ کیا اس کھلی حقیقت سے ہمارے اہل قلم اور اہل دانش لاعلم ہیں؟ یا ’’ضرورتاً‘‘ اس اشرافیائی جمہوریت کے تسلسل کو عوامی جمہوریت کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ولی عہدی کو آسمان پر چڑھانے کا کام سیاسی کارکن ہی انجام دے رہے ہیں۔


ان ولی عہدوں کے جلسوں جلوسوں میں جب ہم غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو ناچتے دیکھتے ہیں تو غریب طبقات کی سادگی اور بے حسی کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے سیاستدان سیاسی طاقت کا مظاہر کرنے کے لیے جلسوں جلوسوں کا جو اہتمام کرتے ہیں ان پر کروڑوں روپوں کی سرمایہ کاری کی جاتی ہے، بڑے بڑے ہزاروں بینرز، لاکھوں پمفلٹ، اخباروں میں مسلسل اشتہارات جن پر کروڑوں کا سرمایہ لگتا ہے، اربوں کی ٹی وی پبلسٹی۔ کیا یہی ہماری جمہوریت کے دست و بازو ہیں؟ کیا اسی کلچر کے تسلسل سے عوامی جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا؟ کیا اسی کلچر سے عوام میں سیاسی بیداری پیدا کی جاسکے گی؟ یہ ایسے بنیادی سوال ہیں جن پر بے حس سے بے حس عاشقان جمہوریت کو بھی غور کرنا چاہیے۔


اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تنقید بلکہ سخت تنقید کی جاتی ہے، لیکن محض سیاستدانوں اور حکمرانوں پر تنقید کرنے سے اس بدترین نظام کی صحت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اسی میڈیا میں ان کرپٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں کے کارناموں کی اس طرح مدح سرائی کی جاتی ہے کہ ان کے خلاف کی جانے والی ہر تنقید اس مدح سرائی میں بہہ جاتی ہے۔ حکمرانوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت اور تعریف کرنا اور اس کے بدلے اپنے منہ کو موتیوں سے بھر لینا تو بڑا آسان کام ہے لیکن ایک کلفت بھری زندگی کے ساتھ اہل سیاست اور حکمران طبقات کے خلاف پوری شدت سے قلم اٹھانا بڑے دل گردے کا کام ہے، اس کام میں اولاد بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے کہ یہ کام اولاد کی خوشحالی کو کھا جاتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...

شاہ لطیف بھٹائی اور عورت کا مقام

  ✏️انتخاب✏️ اس نے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘ میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘ اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘ میں نے کہا ’’اس طرح کہ : وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟ اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘ دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ ’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘ اس حقیقت کا ادراک صرف لطیف کو تھا کہ ’’عورت مسئلہ نہیں عورت محبت ہے!‘‘ مگر وہ محبت نہیں جو مرد کرتا ہے! مرد کے لیے محبت جسم ہے عورت کے لیے محبت جذبہ ہے مرد کی محبت جسم کا جال ہے عورت کی محبت روح کی آزادی ہے مرد کی محبت مقابلہ ہے عورت کی محبت عاجزی ہے مرد کی محبت ایک پل ہے عورت کی محبت پوری زندگی ہے مرد کی محبت ایک افسانہ ہے عورت کی محبت ایک حقیقت ہے! سارے شعراء شیکسپئر سے لیکر شیلے تک اور ہومر سے لیکر ہم تم تک سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے صرف شاہ کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے اس لیے شاہ لطیف نے لکھا: ’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘ سب سوچتے رہے کہ ’’آخر عورت کیا چاہتی ہے؟ تخت؛ بخت اور جسم سخت!؟‘‘ شاہ عبدالطیف کو...

سورہ الطارق

 *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ* 85:21 *بَلۡ هُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِيۡدٌ*  لفظی ترجمہ:  *بَلْ هُوَ:* بلکہ وہ | *قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ:* قرآن مجید ہے ترجمہ: 85:21 (ان کے جھٹلانے سے قرآن پر کوئی اثر نہیں پڑتا) بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔ Nay, this is a Glorious Qur'an, 85:22 *فِىۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ*  لفظی ترجمہ:  *فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ:* لوح محفوظ میں ترجمہ: 85:22 جو لوح محفوظ میں درج ہے۔ (Inscribed) in a Tablet Preserved!  85. Al- Burooj 21-22 *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ* *وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِۙ*  لفظی ترجمہ:  *وَالسَّمَآءِ:* قسم ہے آسمان کی | *وَالطَّارِقِ:* اور رات کو آنے والے کی ترجمہ: 86:01 قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی۔ By the Sky and the Night-Visitant (therein);- 86:02 *وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الطَّارِقُۙ‏* لفظی ترجمہ: *وَمَآ اَدۡرٰٮكَ:* اور کیا چیز بتائے تجھ کو | *مَا الطَّارِقُ:* وہ رات کو آنے والا کیا ہے ترجمہ: 86:02 اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے ؟ And what will explain to thee what the N...