Skip to main content

Who are we in The Holy Quran

Who are we in the Holy Quran.

خود کو قرآن مجید میں ڈھونڈیں. انتہائی​ دلچسپ اور سبق 


آموز

ميں قرآن ميں کہاں ہوں ؟
-------
ایک جليل القدر تابعی اور عرب سردار احنف بن قيس ايک دن بيٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے يہ آيت پڑھی

لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (سورۃ انبياء 10)
(ترجمہ) ”ہم نے تمہاری طرف ايسی کتاب نازل کی جس ميں تمہارا تذکرہ ہے، کيا تم نہيں سمجھتے ہو“۔

وہ چونک پڑے اور کہا کہ ذرا قرآن مجيد تو لاؤ۔ اس ميں، ميں اپنا تذکرہ تلاش کروں، اور ديکھوں کہ ميں کن لوگوں کے ساتھ ہوں، اور کن سے مجھے مشابہت ہے؟

انہوں نے قرآن مجيد کھولا، کچھ لوگوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا، جن کی تعريف يہ کی گئی تھی

كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ o وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ o وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ِ (الذريٰت-17،18،19)
(ترجمہ) ”رات کے تھوڑے حصے ميں سوتے تھے، اور اوقات سحر ميں بخشش مانگا کرتے تھے، اور ان کے مال ميں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حق ہوتا تھا“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (السجدہ۔ 16)
(ترجمہ) ”ان کے پہلو بچھونوں سے الگ رہتے ہيں (اور) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور اُميد سے پکارتے ہيں۔ اور جو (مال) ہم نے ان کو ديا ہے، اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔

کچھ اور لوگ نظر آئے جن کا حال يہ تھا،
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان۔ 64)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور (عجز وادب سے) کھڑے رہ کر راتيں بسر کرتے ہيں“۔

اور کچھ لوگ نظر آئے جن کا تذکرہ اِن الفاظ ميں ہے،
الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاء وَالضَّرَّاء وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (اٰل عمران۔ 134)
(ترجمہ) ”جو آسودگی اور تنگی ميں (اپنا مال خدا کي راہ ميں) خرچ کرتے ہيں، اور غصہ کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہيں، اور خدا نيکو کاروں کو دوست رکھتا ہے“۔

اور کچھ لوگ ملے جن کی حالت يہ تھی،
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر۔ 9)
(ترجمہ) ”(اور) دوسروں کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہيں خواہ ان کو خود احتياج ہی ہو، اور جو شخص حرص نفس سے بچا ليا گيا تو ايسے ہی لوگ مُراد پانے والے ہوتے ہيں“۔

اور کچھ لوگوں کی زيارت ہوئی جن کے اخلاق يہ تھے،
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (الشوريٰ۔ 37)
(ترجمہ) ”اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حيائی کی باتوں سے پرہيز کرتے ہيں، اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر ديتے ہيں“۔
اور کچھ کا ذکر یوں تھا،
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (الشوريٰ۔ 38)
(ترجمہ) ”اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہيں اور نماز پڑھتے ہيں، اور اپنے کام آپس کے مشورہ سے کرتے ہيں اور جو مال ہم نے ان کو عطا فرمايا ہے اس ميں سے خرچ کرتے ہيں“۔

وہ يہاں پہنچ کر ٹھٹک کر رہ گئے، اور کہا : اے اللہ ميں اپنے حال سے واقف ہوں، ميں تو ان لوگوں ميں کہیں نظر نہيں آتا!

پھر انہوں نے ايک دوسرا راستہ ليا، اب ان کو کچھ لوگ نظر آئے، جن کا حال يہ تھا،

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ o وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُوا آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ (سورہ صافات۔ 35،36)
(ترجمہ) ”ان کا يہ حال تھا کہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئي معبود نہيں تو غرور کرتے تھے، اور کہتے تھے، کہ بھلا ہم ايک ديوانہ شاعر کے کہنے سے کہيں اپنے معبودوں کو چھوڑ دينے والے ہيں؟

پھر اُن لوگوں کا سامنا ہوا جن کی حالت يہ تھی،
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (الزمر۔45)
(ترجمہ) ”اور جب تنہا خدا کا ذکر کيا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ايمان نہيں رکھتے انکے دل منقبض ہو جاتے ہيں، اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کيا جاتا ہے تو اُن کے چہرے کھل اُٹھتے ہيں“۔

کچھ اور لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن سے جب پوچھا گيا،
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ o قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ o وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِينَ o وَكُنَّا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ oوَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ o حَتَّى أَتَانَا الْيَقِينُ (المدثر۔ 47-42)
(ترجمہ) ”کہ تم دوزخ ميں کيوں پڑے؟ وہ جواب ديں گے کہ ہم نماز نہيں پڑھتے تھے اور نہ فقيروں کو کھانا کھلاتے تھے اور ہم جھوٹ سچ باتيں بنانے والوں کے ساتھ باتيں بنايا کرتے اور روز جزا کو جھوٹ قرار ديتے تھے، يہاں تک کہ ہميں اس يقيني چيز سے سابقہ پيش آگيا“۔

يہاں بھی پہنچ کر وہ تھوڑی دير کے لئے دم بخود کھڑے رہے۔ پھر کانوں پر ہاتھ رکھ کر کہا: اے اللہ! ان لوگوں سے تيری پناہ! ميں ان لوگوں سےبری ہوں۔

اب وہ قرآن مجيد کے اوراق کو ا لٹ رہے تھے، اور اپنا تذکرہ تلاش کر رہے تھے، يہاں تک کہ اس آيت پر جا کر ٹھہرے:
وَآخَرُونَ اعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (التوبہ۔ 102)
(ترجمہ) ”اور کچھ اور لوگ ہيں جن کو اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار ہے، انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جلا ديا تھا قريب ہے کہ خدا ان پرمہربانی سے توجہ فرمائے، بے شک خدا بخشنے والا مہربان ہے“۔

اس موقع پر اُن کی زبان سے بے ساختہ نکلا، ہاں ہاں! يہ بے شک ميرا حال ہے !! 

تو ہم کن لوگوں میں سے ہیں..؟؟؟ 
سوچئے گا !!

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...