Skip to main content

ISLAMIC HISTORY. AURANGZAIB ALAMGIR

Aurangzaib Alamgir. 



*"استاد اور شاگرد"*

مُلا احمد جیون ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے استاد تھے۔ اورنگ زیب اپنے استاد کا بہت احترام کرتے تھے۔ اور استاد بھی اپنے شاگرد پر فخر کرتے تھے۔ جب اورنگ زیب ہندوستان کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے غلام کے ذریعے  استاد کو پیغام بھیجا کہ وہ کسی دن دہلی تشریف لائیں اور خدمت کا موقع دیں۔ اتفاق سے وہ رمضان کا مہینہ تھا اور مدرسہ کے طالب علموں کو بھی چھٹیاں تھی۔ چنانچہ انہوں نے دہلی کا رُخ کیا۔ استاد اور شاگرد کی ملاقات عصر کی نماز کے بعد دہلی کی جامع مسجد میں ہوئی۔  استاد کو اپنے ساتھ لے کر اورنگ زیب شاہی قلعے کی طرف چل پڑے۔ رمضان کا سارا مہینہ اورنگ زیب اور استاد نے اکھٹے گزارا۔ عید کی نماز اکھٹے ادا کرنے کے بعد مُلا جیون نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا۔ بادشاہ نے جیب سے ایک چونّی نکال کر اپنے استاد کو پیش کی۔ استاد نے بڑی خوشی سے نذرانہ قبول کیا اور گھر کی طرف چل پڑے۔  اس کے بعد اورنگ زیب دکن کی لڑائیوں میں اتنے مصروف ہوئے کہ چودہ سال تک دہلی آنا نصیب نہ ہوا۔ جب وہ واپس آئے تو وزیر اعظم نے بتایا۔ مُلا احمد جیون ایک بہت بڑے زمیندار بن چکے ہیں۔ اگر اجازت ہو تو اُن سے لگان وصول کیا جائے۔ یہ سن کر اورنگ زیب حیران رہ گئے کہ ایک غریب استاد کس طرح زمیندار بن سکتا ہے؟ انہوں نے استاد کو ایک خط لکھا اور ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ مُلا احمد جیون پہلے کی طرح رمضان کے مہینے میں تشریف لائے۔  اورنگزیب نے بڑی عزت کے ساتھ انہیں اپنے پاس ٹھرایا۔ مُلا احمد کا لباس بات چیت اور طور طریقے پہلے کی طرح سادہ تھے۔ اس لئے بادشاہ کو ان سے بڑا زمیندار بننے کے بارے میں پوچھنے کا حوصلہ نہ پاسکا۔  ایک دن مُلا صاحب خود کہنے لگے: آپ نے جو چونّی دی تھی وہ بڑی بابرکت تھی۔ میں نے اس سے بنولہ خرید کر کپاس کاشت کی، خدا نے اس میں اتنی برکت دی کہ چند سالوں میں سینکڑوں سے لاکھوں ہو گئے۔ اورنگ زیب یہ سن کرخوش ہوئے اور مُسکرانے لگے اور فرمایا: اگر اجازت ہو تو چونّی کی کہانی سناؤں۔ ملا صاحب نے کہا ضرور سنائیں۔ اورنگ زیب نے اپنے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی چوک کے سیٹھ “اتم چند” کو  فلاں تاریخ کے کھاتے کے ساتھ پیش کرو۔ سیٹھ اتم چند ایک معمولی بنیا تھا۔ اسے اورنگ زیب کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ڈر کے مارے کانپ رہا تھا۔  اورنگ زیب نے نرمی سے کہا: آگے آجاؤ اور بغیر کسی گھبراہٹ کے کھاتہ کھول کے خرچ کی تفصیل بیان کرو۔ سیٹھ اتم چند نے اپنا کھاتہ کھولا اور تاریخ اور خرچ کی تفصیل سنانے لگا۔ مُلا احمد جیون اور اورنگ زیب خاموشی سے سنتے رہے ایک جگہ آ کے سیٹھ رُک گیا۔ یہاں خرچ کے طور پر ایک چونّی درج تھی لیکن اس کے سامنے لینے والے کا نام نہیں تھا۔ اورنگ زیب نے نرمی سے پوچھا: ہاں بتاؤ یہ چونی کہاں گئی؟ اتم چند نے کھاتہ بند کیا اور کہنے لگا: اگر اجازت ہو تو درد بھری داستان عرض کروں؟ بادشاہ نے کہا: اجازت ہے۔ اس نے کہا: اے بادشاہِ وقت! ایک رات موسلادھار بارش ہوئی میرا مکان ٹپکنے لگا۔ مکان نیا نیا بنا تھا اور تما م کھاتے کی تفصیل بھی اسی مکان میں تھی۔ میں نے بڑی کوشش کی، لیکن چھت ٹپکتا رہا۔ میں نے باہر جھانکا تو ایک آدمی لالٹین کے نیچے کھڑا نظر آیا۔ میں نے مزدور خیال کرتے ہوئے پوچھا، اے بھائی مزدوری کرو گے؟ وہ بولا کیوں نہیں۔ وہ آدمی کام پر لگ گیا۔ اس نے تقریباً تین چار گھنٹے کام کیا، جب مکان  ٹپکنا بند ہوگیا تو اس نے اندر آکر تمام سامان درست کیا۔ اتنے میں صبح کی  اذان شروع ہو گئی۔ وہ کہنے لگا:  سیٹھ صاحب! آپ کا کام مکمل ہو گیا مجھے اجازت دیجیے، میں نے اسے مزدوری دینے کی غرض سے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک چونّی نکلی۔ میں نے اس سے کہا:  اے بھائی! ابھی میرے پاس یہی چونّی ہے یہ لے، اور صبح دکان پر آنا تمہیں مزدوری مل جائے گی۔ وہ کہنے لگا یہی چونّی کافی ہے میں پھر حاضر نہیں ہوسکتا۔ میں نے اور میری بیوی نے اس کی بہت منتیں کیں۔  لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا دیتے ہو تو یہ چونّی دے دو ورنہ رہنے دو۔ میں نے مجبور ہو کر چونّی دے دی اور وہ لے کر چلا گیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ نہ مل سکا۔ آج اس بات کو پندرہ برس بیت گئے۔ میرے دل نے مجھے بہت ملامت کی کہ اسے روپیہ نہ سہی اٹھنی دے دیتا۔ اس کے بعد اتم چند نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور چلا گیا۔ بادشاہ نے مُلا صاحب سے کہا: یہ وہی چونّی ہے۔ کیونکہ میں اس رات بھیس بدل کر گیا تھا تا کہ رعایا کا حال معلوم کرسکوں۔ سو وہاں میں نے مزدور کے طور پر کام کیا۔ مُلا صاحب خوش ہو کر کہنے لگے۔مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہ چونّی میرے ہونہار شاگرد نے اپنی محنت سے کمائی ہوگی۔ اورنگ زیب نے کہا: ہاں واقعی‘  اصل بات یہ ہے کہ میں نے شاہی خزانہ سے اپنے لئے کبھی ایک پائی بھی نہیں  لی۔ ہفتے میں دو دن ٹوپیاں بناتا ہوں۔ دو دن مزدوری کرتا ہوں۔ میں خوش  ہوں کہ میری وجہ سے کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوئی یہ سب آپ کی دعاؤں کا  نتیجہ ہے۔ اللہ پاک ہمیں بھی رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔
*بحوالہ: کتاب/تاریخِ اسلام کے دلچسپ واقعات*

Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...