How to get progress!
HOW TO GET PROGRESS!
*اپنی محرومی کو طاقت بنائیں*
*ناکامی کی وجہ معذوری نہیں، مایوسی ہے*
*(قاسم علی شاہ ۔۔۔کتاب،ترغیب سے اخذ)*
ہرگزرتے دن کے ساتھ وہ دکھ اور کرب کے سمندر میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔ آٹھ برس کی عمر میں اس نے دل برداشتہ ہوکر خودکشی کی کوشش کی لیکن اس میں ناکام رہا۔ دوبارہ خودکشی کرنے کی ٹھانی لیکن اس بار اسے اپنے والدین کا خیال آیا اور اس نے ارادہ ترک کردیا۔ میرے لیپ ٹاپ پر اس کی تصویر ہے اور وہ تصویر میری زندگی کو سب سے زیادہ متحرک کرنے والی تصویر ہے۔سوچیے کسی شخص کے دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں نہ ہوں…تو اس کی زندگی کیسی ہوگی؟ یہ تصویر نِک ووئی چیچ کی ہے۔ وہ جب پیدا ہوا تو اس کے ہاتھ اور پیر نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ دنیا کا معذور ترین بچہ تھا۔ لیکن آج نک دنیا کے متحرک ترین اور مؤثر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لاکھوں لوگ اس کی زندگی بدلنے والی بیسٹ سیلر کتاب "Unstoppable" سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ امریکہ میں وہ ایک غیر تجارتی تنظیم "Life without limbs" کا صدر ہے۔ وہ ایک موٹیویشنل کمپنی "Attitude is Attitude" کا مالک بھی ہے ۔ بے شمار ادارے اور یونیورسٹیاں نک کے رہنمائی فراہم کرنے والے لیکچرز سے متاثر ہوکر اپنی کارکردگی کو بہتر کرچکے ہیں۔ صرف تیس سال کی عمر میں اُس کا شماردنیا کے کامیاب ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح دنیا کا معذور ترین انسان دنیا کا کامیاب ترین انسان بنا؟کس بات نے اسے اتنا متحرک کیا کہ آج وہ لاکھوں لوگوں کو تحریک دینے کا سبب بن گیا؟ ان سب سوالات کا جواب ہے ’’اس کی محرومی اس کی طاقت بن گئی۔‘‘
جی ہاں اس نے اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیا۔ دنیا کا ہربڑا شخص، ہر بڑا ہیرو، ، ہر بڑا رہنما اور ہر بڑا فنکار اپنی محرومی کو طاقت میں بدل دیتا ہے کیوںکہ وہ یہ جانتا ہے کہ محرومی درحقیقت اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سپیشل ٹریٹمنٹ کا ثبوت ہے۔انک نے فیصلہ کرلیا کہ جس چیز کو وہ نہیں بدل سکتا اس کا گلہ نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں اربوں انسان ہیں، جو صحیح سلامت ہیں، لیکن ان اربوں میں نک جیسا کوئی نہیں۔ نک نے اُنیس سال کی عمر میں پہلی تقریر کی اور اب تک وہ ہزاروں طالب علموں ، اساتذہ، بزنس مین، ڈاکٹر، سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو لیکچر دے چکا ہے اور وہ اپنے ہر لیکچر میں ثابت کرتا ہے کہ ’’اگر خدا تعالیٰ بغیر ہاتھوں اور پیروں والے شخص سے اتنا بڑا کام لے سکتا ہے تو جن کے ہاتھ اور ٹانگیں سلامت ہیں، ان سے کام کیوں نہیں لے سکتا۔‘‘
نک کہتا ہے کہ دراصل دنیا میں آکر ہمیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم بھی دنیا میں موجود ہیں اور یہ کام کرنے کے لیے ہمیں کچھ کرکے دکھانا پڑتا ہے۔ وہ کام کیجیے جو دنیا میں آپ کی موجودگی کا اظہار بنے۔ اپنے کام پر اپنی مہر لگائیے کہ یہ کام میں نے کیا ہے۔ نک کا ماننا ہے کہ ہمیں معجزوں کی تلاش کی بجائے خود ایک معجزہ بننا چاہیے تاکہ دنیا حیران ہوجائے کہ اتنی محرومی اورتکلیفوں کے باوجود بھی کوئی کامیاب ہوسکتا ہے۔
آپ گو گل پر جا کر نک کی تصویر دیکھیں یا یو ٹیو ب پر اس کی ویڈیو ملاحظہ فرمائیں۔ آپ حیران ہوجائیں گے کہ اپاہج ہونے کے باوجود اس کے چہرے پر خوشی ہے اور آنکھوں سے اُمید ٹپک رہی ہے۔ کیوںکہ نک کا ماننا ہے کہ مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی۔ خودترسی ایک عذاب ہے اور یہ عذاب ان پر نازل ہوتا ہے جو اپنی محرومی کو گلہ بنا کر دوسروں کے سامنے روتے دھوتے رہتے ہیں۔ نک کے احساسات اور جذبات اس کی شخصیت سے چھلک کر دوسروں کو اس کاگرویدہ بنا دیتے ہیں۔ نک کی خاموشی بھی بولتی ہے کیوںکہ دنیا کی بہترین کمیونیکیشن بغیر الفاظ کے ہوتی ہے۔ نک دراصل ایک شکرگزار انسان ہے ۔اس لیے وہ اکثر کہتا ہے کہ ’’میں نے آج تک کسی شکر گزار کو پریشان نہیں دیکھا اور نہ کسی پریشان کو شکرگزار۔‘‘ شکر گزاری منہ سے ’’شکر الحمد للہ‘‘ کہنے سے نہیں ہوتی بلکہ یہ احساسات اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ شکرگزار انسان خوش ہوتا ہے۔ اسے زندگی سے محبت ہوتی ہے اور یہی جذبہ وہ دوسروں میں بانٹتا پھرتا ہے۔ نک کا ایک جملہ لوگوں کے لیے بہت بڑی تحریک کا سبب بنتا ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ ’’ممکن ہے اس وقت آپ کو کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کے لیے راستہ موجود ہی نہیں…یقیناً کوئی نہ کوئی راستہ اور کوئی نہ کوئی منزل آپ سے زیادہ آپ کا انتظار کر رہی ہے۔‘‘
اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے سے بہت پہلے نک اس حقیقت کو جان چکا تھا کہ ایک بار تو کیا سو بار نا کام ہونا بھی آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ اعزاز دیا ہے کہ وہ اپنی ہار کو جیت میں بدل سکتا ہے۔ نک کہتا ہے کہ آپ ہاتھوں کے بغیر ہوسکتے ہیں اور ٹانگوں کے بغیر بھی لیکن ولولے کے بغیر آپ کچھ بھی نہیں ہیں کیوںکہ ولولہ آپ کی حدود زندگی کو لا محدود حد تک مؤثر بنا دیتا ہے۔ جس طرح محض ایک بیج میں موجود ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں سیب کے درخت اور سیب نہیں گنے جا سکتے اسی طرح ولولے کے ساتھ کیے گئے کاموں کے نتائج بھی لامحدود ہوجاتے ہیں۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ آپ کے کام کے اثرات کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔
نک کہتا ہے کہ تبدیلی کا انتظار مت کیجیے۔ بلکہ خود تبدیلی بن جائیے کیوںکہ بصیرت کے بغیر، ہمت کے بغیر اور محنت کے بغیر زندگی ‘زندگی نہیں۔ اپنی تقدیرکو اپنی محنت اور اپنے ارادے سے بنائیے، نہیں تو دوسرے آپ کی تقدیر کی لگام پکڑ کر آپ کو اُلو بنا دیں گے۔ یاد رکھیے آپ کی تقدیر آپ کے ارادوں کے لمحوں میں بنتی ہے۔ جب آپ کسی بات،کسی شخص، کسی تحریر، کسی کہانی یا کسی واقعہ سے اتنے متاثر ہوں کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو آجائیں تو فوراً کچھ کرنے کا عزم کریں۔ بغیر انتظار کیے کچھ کرکے دکھانے کا فیصلہ کریں اور اسی وقت اللہ کریم سے دعا کریں۔ کبھی نہ بھولیے کہ اللہ تعالیٰ محروم کی زیادہ سنتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پر نظر ضرور پڑتی ہے جس کی آنکھوں میں آنسو ہوں۔ جب کوئی اس کا بندہ بے قرار یا پریشان ہوکر آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتا ہے تو رب ِکعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایسے متوجہ ہوتا ہے جیسے ایک ماں اپنے لاڈلے بچے کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پکار کے اور دعا کے صلے میں اس کے دل میں الہام کرتا ہے کہ وہ ارادہ کرے، عزم کرے، کچھ کرکے دکھانے کا، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کو ہمت کی دولت سے نواز دیتا ہے۔ میاں محمد بخش کے ایک پنجابی شعر کا مفہوم ہے کہ جسے میدان میںاللہ تعالیٰ کھڑا کردے اسے کون گرا سکتا ہے۔ نک جانتا تھا کہ اللہ صرف محبت ہے ا ور محبت کبھی بھی تباہی نہیں بن سکتی۔
نک ایمان کی حد تک مانتا ہے کہ زندگی کے بعض زخم، تکلیفیں اور چوٹیں بہت اچھی ہوتی ہیں۔یہ آپ کو کیا سے کیا بنا دیتی ہیں، آپ کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ در اصل ہر مصیبت میں فائدے کے کئی بیج چھپے ہوتے ہیں۔ ہر محرومی در اصل رب تعالیٰ کی عنایت ہوتی ہے لیکن ہمیں وہ عنایت نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ اگر ہم اس کو قبول کرلیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر گلہ نہ کریں تو وہ رحمت بن جاتی ہیں۔ ہم گلہ کرتے ہیں اور گلہ دوری پیدا کرتا ہے حالانکہ ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ اللہ ہم سے کوئی کام لینا چاہ رہا ہے۔
نک کو بہت سے لوگ برا بھلا کہتے تھے لیکن نک جانتا تھا کہ ’’جن کی وجہ سے دنیا میں کوئی فرق پڑتا ہے وہ برُا نہیں مناتے اور جو برُا مناتے ہیں ان کی وجہ سے دنیا میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں کامیاب ہونے کے لیے اپنی برداشت بڑھانی ہوتی ہے کیوںکہ دنیا کے عظیم لوگوں میں برداشت کرنے کی طاقت عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ لوگوں کے مذاق اور آوازوں کے جواب زبان سے نہیں دیتے، بلکہ وہ اپنے کام سے ثابت کردیتے ہیں کہ تم نہیں جانتے میں کتنا سپیشل انسان ہوں‘‘۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، آپ کو بے شمار صحیح سلامت لوگ سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ لیکن آپ کو اپنی ہی سوسائٹی میں نک جیسے چند خود دار اور باہمت لوگ بھی ملیں گے، جو نیچے والا ہاتھ نہیں بنتے بلکہ اوپر والا ہاتھ بن کر ایک مثال قائم کرتے ہیں ۔ دنیا والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ ’’ہاں میں محروم تھا…ہاں میرے پاس یونیفارم نہیں تھا…ہاں مجھے میلوں پیدل چل کرا سکول جانا پڑتا تھا…ہاں میرے بیگ میں کتابیں بھی مکمل نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی میرے پاس دینے کے لیے فیس ہوتی تھی مگر آج تم میری تحریر پڑھ کر ہمت لے رہے ہو اور یہی میری کامیابی ہے۔‘‘
اگر آپ کو بھی اپنی محرومی کو طاقت میں بدلنا ہے توآپ کو نک کے انداز میں سوچنا ہوگا۔ آپ کو ماننا پڑے گا کہ نک صحیح کہتا ’’دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو آپ سے یہ کہتا ہے کہ تم کچھ نہیں کرسکتے کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے کام کے لیے تمھیں دنیا میں بھیجا ہے…تمھارے بغیر دنیا نامکمل تھی۔ تم آئے تو آج یہ مکمل ہوئی…کتنا بڑا جھوٹا ہوگا وہ شخص جواللہ تعالیٰ کو سچا نہیں مان رہا ۔‘‘
Comments
Post a Comment