Skip to main content

Ramzan is great blessing of Allah

Ramzan is great blessing of Allah.

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا
________________________________________

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے شعبان کے آخری روز ہمیں خظاب کرتے ہوئے فرمایا:

أيها الناس قد أظلكم شهر عظيم، شهر مبارك، شهر فيه ليلة خير من ألف شهر، جعل الله صيامه فريضة، وقيام ليله تطوعا، من تقرب فيه بخصلة من الخير، كان كمن أدى فريضة فيما سواه، ومن أدى فيه فريضة كان كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه، وهو شهر الصبر، والصبر ثوابه الجنة، وشهر المواساة، وشهر يزداد فيه رزق المؤمن، من فطر فيه صائما كان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار، وكان له مثل أجره من غير أن ينتقص من أجره شيء» ، قالوا: ليس كلنا نجد ما يفطر الصائم، فقال: يعطي الله هذا الثواب من فطر صائما على تمرة، أو شربة ماء، أو مذقة لبن، وهو شهر أوله رحمة، وأوسطه مغفرة، وآخره عتق من النار، من خفف عن مملوكه غفر الله له، وأعتقه من النار، واستكثروا فيه من أربع خصال: خصلتين ترضون بهما ربكم، وخصلتين لا غنى بكم عنهما، فأما الخصلتان اللتان ترضون بهما ربكم: فشهادة أن لا إله إلا الله، وتستغفرونه، وأما اللتان لا غنى بكم عنهما: فتسألون الله الجنة، وتعوذون به من النار، ومن أشبع فيه صائما سقاه الله من حوضي شربة لا يظمأ حتى يدخلالجنة. 

" لوگو تم پر عظيم الشان مہينہ سايہ فگن ہو رہا ہے، يہ بابركت مہينہ ہے، اس ميں ايك ايسى رات ہے جو ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كے روزے فرض كيے ہيں، اور اس مہينے كى راتوں كا قيام نفلى ہے، جس نے بھى اس مہينہ ميں كوئى خير و بھلائى كا كام سرانجام دے كر قرب حاصل كيا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ كوئى فرض ادا كيا، اور جس نے اس مہينہ ميں كوئى فرض سرانجام ديا تو وہ ايسے ہى ہے جيسے كسى نے اس مہينہ كے علاوہ ستر فرض ادا كيے، يہ صبر كا مہينہ ہے، اور صبر كا ثواب جنت ہے، يہ خير خواہى كا مہينہ ہے.

اس ماہ مبارك ميں مومن كا رزق زيادہ ہو جاتا ہے، اور جس كسى نے بھى اس مہينہ ميں روزے دار كا روزہ افطار كرايا اس كے گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں، اور اس كى گردن جہنم سے آزاد كر دى جاتى ہے، اور اسے بھى روزے دار جتنا اجروثواب حاصل ہوتا ہے اور كسى كے ثواب ميں كمى نہيں ہوتى.
صحابہ كرام نے عرض كيا: ہم ميں سے ہر ايك كے پاس تو روزہ افطار كرانے كے ليے كچھ نہيں ہوتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اللہ تعالى يہ اجروثواب ہر اس شخص كو ديتا ہے جس نے بھى كسى كا روزہ كھجور يا پانى كے گھونٹ يا دودھ كے ساتھ افطار كرايا،اس ماہ كا ابتدائى حصہ رحمت ہے، اور درميانى حصہ بخشش اور آخرى حصہ جہنم سے آزادى كا باعث ہے.جس كسى نے بھى اپنى لونڈى اور غلام سے تخفيف كى اللہ تعالى اسے بخش ديتا اور اسے جہنم سےآزاد كر ديتا ہے، اس ماہ مبارك ميں چار كام زيادہ سے زيادہ كيا كرو: دو كے ساتھ تو تم اپنے پروردگار كو راضى كروگے، اور دو خصلتيں ايسى ہيں جن سے تم بےپرواہ نہيں ہو سكتے:جن دو خصلتوں سے تم اپنے پروردگار كو راضى كر سكتے ہو وہ يہ ہيں: اس بات كى گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور اس سے بخشش طلب كرنا.

اور جن دو خصلتوں كے بغير تمہيں كوئى چارہ نہيں: جنت كا سوال كرنا، اور جہنم سے پناہ مانگنا.جس نے بھى اس ماہ مبارك ميں كسى روزے دار كو پيٹ بھر كر كھلايا اللہ سبحانہ و تعالى اسے ميرے حوض كا پانى پلائيگا وہ جنت ميں داخل ہونے تك پياس محسوس نہيں كريگا "

( صحيح ابن خزيمة: ۱۹۱/۳ح۱۸۸۷)

ضعیف:

امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب قائم کیا ہے وہ کچھ یوں ہے:” اگر يہ حديث صحيح ہو تو فضائل رمضان كے بارہ ميں باب“

۱: اس کا راوی علی بن زید بن جدعان ”ضعیف“ہے۔(تقریب التہذیب: ۴۷۳۴)
٭جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف کہا ہے۔ (زوائد ابن ماجہ:۲۲۸)

٭امام نسائی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے اسے”لیس بشئ“ اور امام ابو زرعة اور امام ابو حاتم رحمہمااللہ نے اسے ”لیس بقوی“ کہا ہے۔ دیکھئے: (العلل لابن ابی حاتم: ۲۵۱/۱، الکامل لابن عدی: ۳۳۳/۶، تقریب التہذیب: ۴۳/۲، الجرح والتعدیل: ۲۴۹/۶)

٭امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث منکر ہے ۔“ (العلل لابن ابی حاتم :١/٢٤٩)

٭ علامہ سیوطی نے اسے الدر المنثور میں ذکر کرکے کہا ہے کہ: "اسے عقیلی نے روایت کیا اور اسے ضعیف کہا ہے۔"

٭علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری (۲۰/۹) میں اس پر "منکر" کا حکم لگایا ہے۔

٭شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :”منکر“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة :٨٧١)
٭شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :”یہ حدیث باطل ہے۔“ (النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔١/٢٩١)

تنبیہ:ابن عدي (۱۱۵۷/۳) اور العقیلي (۱۶۲/۲) میں اس کا ایک ”سخت ضعیف“ شاہد بھی ہے۔

۱: اس کی سند میں سلام بن سلیمان بن سوار ”منکر الحدیث“ اور سلمة بن الصلت ”غیر معروف“ راوی ہے۔

٭امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لأصل له. ”اس کی کوئی اصل نہیں“
تواس طرح اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور اسی طرح اس کی سب کی سب متابعات بھی ضعیف ہیں جس پرمحدثين نے منکر کا حکم لگایا ہے ، اورایسے ہی اس میں ایسی عبارت پائ جاتی ہے جس کے ثبوت میں نظر ہے مثلا :

اسے تین حصوں میں تقسیم کرنا کہ پہلاعشرہ رحمت اوردوسرا مغفرت اورتیسرا آگ سے آزادی کا ہے ، اس کی کوئ دلیل نہیں ملتی بلکہ اللہ تعالی کا فضل وکرم وسیع ہے اوررمضان مکمل طور پر مغفرت کا ہے اورہر رات اللہ تعالی جہنم سے آزادی دیتے ہیں اوراسی طرح عید الفطر کے وقت بھی جیسا کہ احاديث صحیحہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے ۔

اوراسی طرح حدیث میں یہ بھی ہے کہ :

(جس نے بھی اس مہینے میں نیکی کی وہ ایسے ہے جس طرح عام دونوں میں فریضہ ادا کیا جائے ) ۔

تواس کی کوئ دلیل نہیں بلکہ نفل تونفل ہی رہتا ہے اورفرض فرض ہی ہے چاہے رمضان ہو یا رمضان کے علاوہ کوئ اور مہینہ ۔

اورحدیث میں یہ عبارت بھی ہے کہ :

(اور جس نے رمضان میں فرض ادا کیا گویا کہ اس نے رمضان کے علاوہ ستر فرض ادا کیے ) ۔
تواس تحدید میں بھی خلاف ہے کیونکہ رمضان اورمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں نیکی دس سے لیکر سات سو تک ہے تو اس لیے روزے کے علاوہ کسی چيز کی تخصیص نہیں کیونکہ روزے کا اجر بہت زیادہ جس میں مقدار کی تحدید نہیں کی گئ جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے کہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اللہ تعالی فرماتا ہے ( روزے کےعلاوہ ہرعمل ابن آدم کے لیے ہے اس لیے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

تو ضعیف احادیث سے بچنا ضروری ہے اوریہ بھی ضروری ہے کہ اسے بیان کرنے سے قبل حدیث کا درجہ معلوم کرلینا چاہیۓ ، اوررمضان المبارک کی فضيلت میں احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث لینی چاہیں ۔

اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرمائے اورسب کےاعمال صالحہ قبول فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین ۔
واللہ تعالی اعلم .


Comments

Popular posts from this blog

The History of Calander.

  بارہ مہینوں کے نام کیسے پڑے؟ تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کاموقع دینے والی دلچسپ داستان سال کے365 دن 12؍ مہینے رکھتے ہیں۔ ان میں کوئی30، کوئی31 اور کوئی28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔  ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے، یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے۔                                  جنوری عیسوی سال کے پہلے مہینے کا نام، رومیوں کے ایک دیوتا جانس (Janus) کے نام پر رکھا گیا۔  جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ,امن میں نہیں۔ دیوتا کے دو سر تھے، جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا۔اس مہینے کا نام جانس یوں رکھا گیاکہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے، اسی طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ جنوا (Janua) سے اخذ کیاگیا جس کا مطلب ہے ’’دروازہ‘‘۔ یوں جنوری کا مطلب ہوا ’’سال کا دروازہ‘‘۔ماہ جنوری31؍ دِنوں پر مشتمل ہے۔           ...

The history of December Holidays

  The December holidays in the Indian subcontinent originated during the period of British rule (the British Raj). Origin of Public Holiday: As the ruling power was Christian, Christmas Day (December 25th) was established as a major public and government holiday throughout British India. Early Celebrations: Records from colonial-era cities like Calcutta (Kolkata) show elaborate and extensive Christmas celebrations by the European community beginning as early as the mid-18th century and becoming more widespread and lavish by the 19th century. Banks and government offices would typically close Winter School Vacations The Fortnight Break: The British-style education system introduced a fortnight-long (two-week) break around the Christmas and New Year period. This was a direct import of the academic calendar from the United Kingdom. This practice was well-established by the early to mid-19th century. Climatic Necessity: For many colder, high-altitude regions (especially in the north), ...

Hazrat Ali

  مولا علی علیہ السلام کون؟؟؟؟ ایک عظیم تعارف مودت سے لبریز ایک خوبصورت تحریر وہ علی :جو عین اسلام ہیں وہ علی :جو کل ایمان ہیں وہ علی: جو خانہ کعبہ میں پیدا ہوا اور مسجد کوفہ میں شہید کیا گیا۔ وہ علی :جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے مصحف روئے نبی کی زیارت کی اور جو نور میں ،خلق میں ،تبلیغ میں،راحت میں ،کلفت میں،بزم میں،رزم میں غرض ہر منزل میں رسول خدا کا ہم رکاب ہیں ۔ وہ علی: جو خاتم الرسل کا بھائی اور وصی ہیں وہ علی : جوفاطمہ الزہرا کا شوہر تھا۔ وہ علی :جو سرداران جنت حسنین علیہما السلام کا باپ تھا۔ وہ علی :جو نہ صرف مومن آل محمد تھا بلکہ خدا کے آخری نبی خاتم الرسل کا شاہد و گواہ بھی تھا۔ وہ علی: جو ایسا عبادت گزارتھا کہ حالت نماز میں پاوں سے تیر نکال لیا گیا اوراسے احساس تک نہیں ہوا۔ وہ علی :جس کی زندگی انتہائی سادہ اورپاکیزہ تھی۔ وہ علی: جس نے تمام عمر محنت و مزدوری کی اورع جو کی خشک روٹی کھا تا رہا۔ وہ علی: جو علوم کائنات کا حامل تھا اور جسے زبان وحی سے مدینۃ العلم کا لقب عطا ہوا۔ وہ علی: جس نے مسجد کوفہ کی منبر سے سلونی سلونی قبل ان تفقدونی کا علان کیا۔ وہ علی: جس کے عدل کی ...